بندر کے ہاتھ میں استرا ہے


بچپن ایسا سنہرا دور ہے کہ انسان چاہے بھی تو بھول نہیں سکتا۔ یادیں اتنا قیمتی خزانہ کہ آخری سانس بھی حفاظت کرتی ہے اس متاع کی۔ وہ بچپن کے کھیل، وہ میلے تماشے بڑی شان سے لاشعور میں رہتے ہیں۔ دل میں بستے ہیں اور آنکھ بند کرتے ہی پردہ سکرین پہ لہراتے ہیں۔ کوئی فلم سی چل پڑتی ہے گویا اور ہم اسی دور میں جا پہنچتے ہیں جسے آج کی مشینی زندگی نے گم کر دیا ہے۔

ہمارا بچپن بھی بہت خوبصورت گزرا، گھر میں ہمیشہ میلے کا سماں رہا۔ ان میلوں سے ہٹ کے کبھی کبھار باہر کے میلے دیکھنے کا موقع بھی مل جاتاتھا۔ سب سے بڑا میلہ تہواروں پہ لگتا جب لکی ایرانی سرکس کا ہمارے شہر میں پڑاوء ہوتا۔ رنگ برنگے کرتب، ہر قسم کے جھولے اور اس پہ ہماری خوش نصیبی کہ یہ سرکس اور میلے ہمارے گھر کے ساتھ خالی پڑے میدان میں سجتے۔ ہر دن گویا عید کا دن اور ہر رات شب برات، اگر میلہ دیکھنے کی اجازت نہ بھی ملتی تو بھی آوازیں بلا تعطل ہمارے آنگن میں گونجتی رہتی تھیں۔ ان آوزوں سے کہانی بنانا ہمیں شروع سے بے حد پسند رہا اور ہم گھر بیٹھے تخیل میں میلے کی سیر بھی کر آتے۔

جب قسمت یاوری کرتی تو ہم کزنز مل کر میلہ دیکھنے جاتے۔ تخیل میں سجی کہانیاں حقیقت بن کر سامنے آ جاتیں اور ہم خوشی سے پھولے نہ سماتے۔ رنگ برنگے کرتب بچپن کو مزید رنگین اور خوبصورت بنا دیتے۔

میلے کی خوبصورتی کو اس وقت چار چاند لگ جاتے جب مداری کھلے میدان میں بندر کا تماشہ دکھاتا۔ یہ واحد ٹکٹ فری تفریح تھی جس سے ہر خاص وعام محظوظ ہو سکتا تھا۔ مداری ہاتھ میں ڈگڈگی لئے بجاتا اور اس کے ساتھ موجود جمہورا بندر کی اداکاری کے ساتھ با آواز بلند صداکاری کرتا۔ مکالمہ کچھ اس طرح سے ہوتا!

مداری۔ جمہورا سامنے آ۔
جمہورا۔ بابا آ گیا۔
مداری۔ گھوم جا۔
جمہورا۔ گھوم گیا۔
مداری۔ الٹا چل کے دکھا۔
جمہورا۔ لو ابھی چلا۔

اس سب کے دوران بندر کی اداکاری عروج پر ہوتی۔ بندر کا محبوب مشغلہ مجمع میں موجود کسی بھی شخص کی جوئیں نکالنا تھا۔ کوئی بھی شخص مداری کو کچھ رقم دے کر کسی کی بھی جوئیں نکلوا سکتا تھا۔ تماشے کو دلچسپ بنانے کے لئے اکثر لوگ ایک دوسرے کی جوئیں نکلواتے۔ شامت تو اس کی آتی جس کے کندھے پہ بیٹھا بندر اس کی جوئیں نکالتا۔ ذرا سی حرکت پہ کرارا تھپڑ اس فرد کا مقدر بن جاتا۔ ساتھ ساتھ مداری اور جمہورا مزید شہ دیتے اور بندر مار مار کے اگلے کا منہ لال گلال کر دیتا۔

آجکل ہمارے ملک کی جو صورتحال ہے اس کو دیکھ کر بھی وہی تماشہ ذہن میں آ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے میدان میں میلہ سجا ہے۔ مداری ڈگڈگی لئے بجا رہا ہے، جمہورے کی صداکاری عروج پر ہے۔ بندر اپنے کرتب دکھا رہا ہے، تھپڑ کھا کھا کے عوام کا منہ لال گلال ہے۔ بس فرق پڑا ہے تو صرف اتنا کہ اس بار بندر کے ہاتھ میں ”استرا“ ہے۔ نجانے کب کس کو زخمی کر دے یا خود کو ہی کوئی گھاؤ دے دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).