وہ سب کیسے ملیں گے


آج بھی چالیس سال پیچھے نگاہ چلی جاتی ہے لیکن ساتھ میں سب کچھ وہاں پہنچ جاتا ہے، جب ایک بے فکری تھی، کیوں نہ ہوتی بچپن ہر کسی کا ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کی یادیں کون بھول پاتا ہے۔ ذہن میں ایک انبار لگا ہے چیزوں کا، باتوں کا، قصوں کہانیوں اور کرداروں کا، یہ وہ دور ہوتا ہے اور تھا جب سب کچھ سادہ اور سچا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ جھوٹ نہیں بولتے تھے، لیکن اس کا احساس تھا۔

آج بیٹھے بیٹھے نہ جانے کیا کچھ اس ایک چھوٹے سے وڈیو کلپ نے کئی سرد شامیں اور گرم دوپہریں ایک لمحے میں تازہ کردیں۔

وہ ایک پیسہ، پانچ پیسے، دس پیسے، چونی، اٹھنی جنہیں اپنی مٹھی میں تھامے کتنے مسرور اور مطمئن ہوتے، ان سے اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بڑی آسانی بازار سے خرید لیتے، امی ابو سے اپنی معصوم ضدیں بھی منوالیے۔ پانی میں چلنے والی موٹر بوٹ جس میں موم بتی جلا کر چلاتے اور پولکا آئس کریم کی خواہش کسے بھولی ہوگی،

گرمی کی چھٹیوں میں دوپہر کو بڑوں کی سونے کی تاکید کے باوجود چوری چھپے گھر کے صحن یا کسی دوست کے گھر جاکر اپنے کھیل کھیلنا، کبھی منع کرنے کے باوجود کانچ کی گولیوں سے دل بہلانا، کچھ بڑے ہوئے تو چھوٹی سائیکل چونی گھنٹہ کرائے پر لاکر چلانا۔ ٹائر کی ہوا نکلنے پر بڑی تگ ودو سے ہوا بھرنے کی مشقت میں بڑا مزہ آتا تھا۔ اس پمپ کو بڑوں کی طرح کرتے کو منہ میں ڈال کر دو ہاتھوں سے اوپر اٹھاکر پھر ہوا کے دباؤ کے باعث کود کر نیچے دبانا۔

چھپن چھپائی کھیلنے کے دوران ایسی جگہوں پر جاکر چھپ جانا جنہیں کوئی ڈھونڈ نہ پاتا۔ حتیٰ کہ کئی خطرناک مقام بھی پناہ گاہ ہوتے جہاں چھپنے میں خطرہ ہوتا۔

شام ڈھلے تفریح کے دوسرے دور کا آغاز ہوجاتا یہ گھروں میں ٹی وی تھا۔ جس میں کارٹونز کے ساتھ ساتھ بڑوں کے ڈرامے اور پروگرام آج بھی نہیں بھول پائے۔ سکس ملین ڈالر مین، چپس، سٹارٹریک، بائیونک وومن، دی سینٹ اور نائٹ رائیڈر پھر ففٹی ففٹی، الف نون، آنگن ٹیڑھا، بڑوں کے ڈراموں میں وارث، ایک محبت سو فسانے، بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر نیلام گھر دیکھنا پھر سوالوں کے جواب دینا۔ طارق عزیز ہو یا کسوٹی کے حمایت علی شاعر، قریش پور اور افتخار عارف عبید اللہ بیگ ان کے علاوہ ضیاء محی الدین کا اپنا شو بھی معلومات کا ذخیرہ ہوتا۔

بھارتی فلم دیکھنے کے لئے چھت پر چڑھ کر انٹینا ٹھیک کرنا اور پھر نیچے بار بار آواز دینا بتاؤ اب ٹھیک ہوگیا، آندھی، طوفان اور بارش میں سر پر پلاسٹک رکھ کر جانا مشکل ہوتا لیکن اپنے شوق کی تسکین کے لئے یہ سب بھی کر گزرتے۔

نازیہ حسن اور زوہیب حسن کو دیکھ کر جدید گائیکی کا شوق بھی چراتا اور فیشن کرنے کو دل بھی للچاتا۔ ٹی وی اناؤنسر جنہیں آج اینکر کہتے وہ بھی بڑے بھلے اور اپنے اپنے سے لگتے۔ جن کے چہرے آج بھی شناسا سے لگتے۔

بچپن میں ہم نے بارش کے جمع ہونے والے پانی اور کسی تالاب میں کاغذ کی کشتیاں چلانا کبھی ذہن سے نہیں جاتا، پھر جہاز بناکر اڑانا اور آپس میں مقابلے کرنا۔
ان دنوں ہر گھر کے دروازے پر نہیں لیکن جس پر گھنٹی لگی ہوتی اس کو بجانے کو نہ جانے کیوں دل للچاتا اور پھر بے اختیار انگلی دبا کر کسی محفوظ مقام پر چھپ جانا کسے بھولا ہوگا۔
یہ سب باتیں، حرکتیں، چیزیں، اور کردار آج بھی کسی انداز میں سامنے آتے ہیں تو جیسے سب کچھ یاد آجاتا ہے۔

آج لوگ زیادہ ہوگئے، چیزیں بے شمار، کردار یاد رکھنا مشکل، ہر کسی مصروفیت اتنی کہ پہلے کبھی وی سی آر پر فلم دیکھتے، واک مین پر گانے سنتے، اگرچہ یہ سب کمپوٹر بلکہ ہاتھ میں پکڑے موبائل یا لیپ ٹاپ میں آچکا ہے۔ اب وڈیو سنٹر سے فلم لانے کی زحمت نہیں کرنا پڑتی، آڈیوکیسٹ سنتے ٹیپ میں پھنسنے پر پنسل سے دوبارہ اس کی ریل چڑھانے کی خوشگوار مشقت بھی نہیں، سنگل کلک پر فلم، گانا، حتیٰ کہ حال، ماضی کی کوئی بھی یاد تازہ کرنا نہایت آسان ہوگیا۔

ذہن کی پرواز اگرچہ زیادہ بلند رکھنے کی کوشش رہتی ہے لیکن جس بے پروائی سے اس وقت اُڑان بھرتے وہ انداز شاید اب نہیں رہا۔ ایک دوسرے سے جتنے مخلص تب تھے اب ہم چاہ کر بھی اخلاص پیدا نہیں کرپاتے۔

ماضی کے مزار پر حاضری دینے یا چادر چڑھانے کی فرصت نہیں۔ ایک نام نہاد دوڑ میں خود کو شریک کرلیا ہے، جس کا ہدف بھی شاید معلوم نہیں لگے بندھے اہداف کو حاصل کرنے میں دن رات کا پکڑنے کی ناکام کوشش یا حسرت ہمیں اپنے کل سے ایک ایک دن دور کرتی جارہی ہے۔
اب تو صرف پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یہی سوچ ذہن میں آتی ہے کہ وہ چیز وہ کردار وہ پرانے دوست شناسا چہرے، دن رات کیسے ملیں گے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar