مملکتِ خدا بخش کے روحانی محافظ


مملکتِ خدا بخش کی تخلیق کسی معجزہ سے کم نہیں تبھی تو اگلے ہی دن شیطانی طاقتیں متحرک ہوئیں اور عین وسط میں کافرستان جیسی ناپاک سلطنت کی تخلیق کا منطقی عمل مکمل ہو گیا۔ وہ دن اور آج کا دن روحانی طاقتیں سارے کام چھوڑ چھاڑ کے مملکت کے دفاع پر معمور ہیں۔ سرحد پر خوشی کے شادیانے بجائے جاتے رہے دونوں اطراف لاکھوں حلال جانوروں کی قربانی روحانی اور شیطانی طاقتوں کے نام پر اس طرح دیں کہ دھرتی سہاگ کا لال جوڑا پہنے امریتا پریتم کے گیت گانے لگی۔ چشم فلک نے وہ پاکیزہ رقص بھی پہلی دفعہ دیکھا جس کا تذکرہ منٹو کھول دو میں کر چکا ہے۔ ہولی، بیساکھی اور عید قربان جیسے مقدس تہوار بیک وقت اور مسلسل سال بھر جاری رہے۔

اس جشنِ مسلسل میں شاد عوام کو بے خبر پا کر روحانی طاقتون نے نظریاتی سرحدوں کے تحفظ کا بارِ گراں اپنے کندھوں پر اٹھا لیا تاکہ معجزاتی تخلیق کا مستقبل روحانی طاقتوں کے ہاتھ میں محفوظ رہے۔ قدرت اللہ شہاب جیسی ایمان دار سول بیوروکریسی کی بنیاد رکھی جو اگر رشوت لے بھی تو اس لیے کہیں کسی مجبور کی انا کو ٹھیس نہ پہنچے۔ پیرِ کامل اور شجاع سپہ سالارِ مملکت کو سامنے لے کے آئے کہ صلاح الدین جیسے سپہ سالار کی روح بھی پکار اٹھی، کاش مین مملکتِ خدا بخش کے عہدِ ایوبی میں پیدا ہوتا۔

چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا جب چند انتشار پسند عناصر نے آپریشن جبرالٹر کے ذریعے شیطانی طاقتوں کو شہہ دی کہ وہ مملکت پر حملہ کر دیں۔ آسمانون پر کھلبلی مچ گئی اور وہاں مقیم طاقتیں عرب اسرائیل کی سلگتی آگ کو بھول کر اس طرف متوجہ ہوئیں، سبز پوشاک زیب تن کیے روحانی فوجدارں کی اضافی کمک ایوبی سلطنت کی مدد کو فوراً روانہ کر دی گئی۔ پھر کیاتھا شیطانی توپ سے داغا جانے والے گولا ان سر سبز و شاداب امداد کنندگان کی مبارک جھولی میں گل دستہ بن کر گرتا اور وہ اسے راوی ندی کی بھینٹ چڑھا دیتے۔ سترہ دن یہی کچھ ہوتا رہا آخرکار روحانی محافظوں نے دشمن کی بندوقوں اور توپوں کی نل موم کی طرح پگھلا کر ٹیڑھے کر دیے، تب کہیں جاں خلاصی ہوئی۔

یہی کارہاے نمایاں نہیں ہیں بلکہ ان طاقتوں نے انصاف اور میزان کی اعلی مثال قائم کرتے ہوئے آپس میں گتھم گتھا دو بھائیوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) کے درمیان مساوات پہ مبنی تقسیم کی اور کل عالم سے داد و تحسین کے حق دار ٹھہراے گئے۔ تقسیم کے اس روح پرور عمل نے پھر سے ان طاقتوں کو نظریاتی اساس کے جھنڈے تلے یکجا کیا اور افہام و تفہیم پر مبنی سیاسی دلیل پر غداری کا فتوی صادر کرتے ہوئے سولی چڑھا دیا اور خود کفر و الحاد کے خلاف لڑتے جامِ شہادت نوش فرمایا۔

ہم پھر بھی انجان بنے پتلی تماشہ دیکھتے رہے، ایک دہائی تک اختیارات کی حامل روحانی طاقتیں اقتدار کی کرسی پر ڈرامہ کرتی رہیں، کبھی کوئی پیادہ چت تو کبھی کسی کو مات، آخرکار جنم جنم کی میلی چادر کا پردہ ایک سید زادے کمانڈو نے دن دھاڑے چاک کرتے ہوئے اقتدار اور اختیار کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی۔ اس سید زادے کمانڈو کی طاقت کا راز تب کھلا جب ہمارے راہِ حق پر جاں قربان کرنے والے مردِحق کے جانشین آسمانی محافظوں نے سات سمندر پار دو جڑواں شیطانی قعلوں کو راکھ کا ڈھیر بنا ڈالا۔ روحانی مواصلاتی نظام متحرک ہوا اور کمانڈو رات کے اندھیرے میں اپنا روحانی مکا لہراتے ہوئے شیطانی طاقتوں کے پاؤں گر پڑا۔

ستر برس اسی کشمکش میں گزر گئے اور اب جا کے چمن میں ایک دیدہ ور پیدا ہوا ہے جس کی ایمانداری، شرافت اور سادگی کی ضمانت روحانی ماتا اپنے روح پرور انٹرویو میں دے چکی ہیں۔ اور تو اور ِ اصحاب الکھف کے کتے کی نسل سے تعلق رکھنے والا موٹو بھی روحانی فیض حاصل کر چکا ہے۔ روحانی سلطنت سے چن چن کر ہیرے اس کی ٹیم میں شامل کئیے گئے جو صادق اور امین ہیں۔ کُل جہاں کے مالیاتی ادارے اپنا روحانی سرمایہ اس کے حفاظت میں دے رہے ہیں عرب ڈالر مملکت کی روحانی عوام کی فلاح وبہبود میں ہاتھ باندھے کھڑے ہیں روپیہ کا روحانی سفر نئی بلندیون کو چھو رہا ہے۔ مملکت خداداد میں جو آخری صاحب اقتدار تھے ان کا جھکاؤ کافرستان کے شیطانی پیش رو مودی کی طرف تھا جس وجہ سے مملکت کا وجود خطرے میں آ گیا، روحانی قوتیں فوراً حرکت میں آئیں اور اس ناپاک حرکت پر اسے نشانِ عبرت بنا دیا۔

روحانی طاقتوں سے فیض یاب ہر صاحبِ اقتدار پر کامیابی کا دروازہ پاگل کے قہقہے کی طرح کھیلتا گیا۔ مگر کبھی کسی صاحب اقتدار نے حالات کا جائزہ لینے کی کوشیش نہیں کی۔ یہ لوگ رہبانیت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے توبہ بھی کرتے رہے اور اگلے ہی دن وہی غلطی دہراتے نظر آئے۔ دلیل اور سیاست کے نظریہ کو اپنے ہی پیروں تلے روندتے ہوئے عوامی حاکمیت کے تصور کو عدالتی نظام کی بلی چڑھایا گیا۔ عقل کب آئی جب مصیبت خود پر پڑی، دوسری طرف مفرور کمانڈو ان کی بدحالی پر محوِ رقص ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).