پروٹوکول اور ہمارے معاشرے کی زبوں حالی


کہتے ہیں کسی ملک میں ایک بادشاہ نے عوام پر ظالمانہ ٹیکس لگا دیا، کہ عوام احتجاج کرتے ہوئے اس کے پاس آئیں گے، لیکن کوئی رد عمل نہ ہوا۔ پھر اس نے عوام کو مزید تنگ کرنے کے لیے انہیں ٹیکس کے ساتھ دو دو جوتے مارنے کا بھی حکم دیا۔ اب عوام کا ایک جم غفیر بادشاہ کے پاس آگیا۔ بادشاہ بہت خوش ہوا کہ اب عوام احتجاج کریں گے، لیکن وہ حیران رہ گیا جب عوام نے مطالبہ کیا کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے کیوں کہ انہیں قطار میں لگ کر جوتے کھانے پڑتے ہیں۔

ہمارا مذہب، اسلام ہمیں مساوات کا درس دیتاہے۔ مساوات کے معنی برابری کے ہیں۔ اس میں امیر غریب، چھوٹا بڑا اور سیاہ و سفید، سب برابر ہیں۔ لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ ہمارے ہاں ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس ” کے مترادف مختلف طبقات وجود میں آچکے ہیں۔ اشرافیہ اور متوسط طبقے میں واضح فرق دیکھا جا سکتا ہے۔

ہم تمام اہل اقتدار کی عزت کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو آئینہ بھی دیکھانا چاہتے ہیں کہ اسلامی دور میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے وقت کے بہت بڑے حکمران تھے، جن کی حکومت 22 لاکھ مربع میل سے بھی زائد رقبے پر پھیلی ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود راتوں کو اٹھ اٹھ کر رعایا کی خبرگیر ی کرتے تھے۔ جبکہ آج کے حکمران تو دور کی بات کسی علاقے کے کونسلر یا چئیرمین سے بھی کسی جائز مسلے کے لیے ملنا ہو تو صاحب بہادر کئی کئی دن تک دستیاب نہیں ہوتے۔

پہلے پہل سڑکوں پر کوئی اپنے باڈی گارڈز کے ساتھ گزرتا تو لوگ سوچتے تھے کہ یہ کوئی بہت اہم شخصیت ہے، لیکن اب ہر ایرا غیرا نتھو خیرا، جس کی جیب میں چند روپے ہیں، وہ اپنے حواریوں کے ساتھ یوں سٹرکو ں پر چلتا ہے کہ جیسے دنیا میں وہی سب سے اہم شخصیت ہے اور باقی سب کیڑے مکوڑے۔ اور شاید عوام بھی اس ذلالت کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ انہیں اس طرح سرعام کسی کا اپنے سے برتر ظاہر کرنا محسوس ہی نہیں ہوتا، اور اگر کوئی شامت کا مارا ان کی راہ کی رکاوٹ بن جائے تو اسے سرعام عبرت کا نشانہ بنادیا جاتا ہے، جس کی ایک مثال کوئٹہ میں ہمارے حکمران جماعت کے رکن کے ہاتھوں غریب ٹریفک وارڈن کی سرعام موت ہے۔

اے اہل اقتدار، خدا کے لیے اپنا قبلہ درست کرو۔ مرنے کے بعد سب نے ایک جیسی ہی قبرمیں جانا ہے، جہاں پر نہ تو فرشتہ رشوت لیتا ہے اور نہ آپ کے دنیاوی مرتبے کا لحاظ کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).