گھریلو ناچاقیاں اور ہمارے بچے



ہمارے معاشرے میں میاں بیوی کا آپس میں جھگڑا، ایک رسمی سا جھگڑا نظر آتا ہے۔ میاں بیوی کے جھگڑے کے بارے میں تو یہاں تک سننے کو ملتا ہے، کہ یہ جھگڑا حضرت انسان کے پہلے جوڑے ہی سے شروع ہوا اور تب سے رسمی طور پر ساتھ چلا آ رہا ہے۔ مگر آج کے معاشرے میں یہ جھگڑا ہمارے بچوں پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے، یہ تحریر اس بات کے متعلق کچھ بتائے گئی۔

کلاس میں اکثر یہی دیکھنے کو ملتا، کہ سب بچے جب ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف ہوتے، تب ایک بچہ گم سم سے بیٹھا ہوتا۔ میں معمول کے مطابق ان سے ٹیسٹ لیتا، ٹیسٹ کے بعد جب انھیں وہ ٹیسٹ چیک کر کے واپس کرتا تو پچھلے کئی دنوں سے میں یہ بات نوٹ کر رہا تھا کہ اس گم سم رہنے والے بچے کا ٹیسٹ خراب ہی ہوتا۔ اسکول کے باقی اساتذہ کو اس بات کے متعلق پوچھا، تو انھوں نے صرف اتنا جواب دیا کہ ہر بچہ لائق نہیں ہوتا۔ بات ان کی بھی حقیقت پر مبنی تھی؛ نجانے کیوں مجھے پھر بھی ایسا لگتا تھا کہ یہ بچہ کسی پریشانی میں مبتلا ہے۔ جب اس کا ٹیسٹ خراب ہوتا تو بغیر کچھ کہے میں اسے ٹیسٹ واپس کر دیتا مگر وہ بچہ پھر بھی رونے لگتا۔

اساتذہ کا کہنا تھا کہ یہ بچہ صرف اس لیے روتا ہے، تا کہ مار سے بچ سکے؛ مگر آپ اس کے آنسوؤں پر توجہ نہ دیجیے گا۔ ہم تو اسے ضرور سزا دیتے ہیں۔ میں حیران ہوا۔ ایک استاد سے پوچھا کہ کیا سزا دینے کے بعد اس کا رزلٹ کچھ بہتر ہوا، تو اس استاد نے بھی انکار کر دیا۔ مطلب سزا دو یا نہ دو اس بچے سے ٹیسٹ خراب ہی رہتے تھے۔ کچھ لمحے کے لیے میں بھی یہ سوچتا کہ ٹھیک ہے یہ بچہ واقعی نہیں پڑھ سکتا ہو گا، اس لیے اس کے ٹیسٹ خراب ہیں۔ میں نے اس بچے سے کہا کہ اپنے والد کو صبح بلا کر لانا۔

آٹھ دن بعد اس کے والد صاحب اسکول آئے۔ میں نے ٹیسٹ کو چھوڑ کر یہ بات کی کہ آپ کا بچہ ڈرا ڈرا سا اور گم سم سا رہتا ہے_ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے والد نے جواب دیا کہ نہیں ایسا تو نہیں وہ کم گو ہے، اس لیے آپ کو ایسا لگتا ہے۔ ٹھیک ہے میں مان لیتا ہوں مگر کیا گھر میں بھی اس کا رویہ ایسا ہی ہے؟ اکثر طالب علم اساتذہ سے ڈرے رہتے ہیں مگر مجھے معلوم تھا کہ بچے اپنی ماں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نہیں گبھراتے۔

میں نے پوچھا کہ کیا یہ اپنی والدہ کے ساتھ بات چیت کرتا ہے کہ وہاں بھی کم گو ہی رہتا ہے۔ اس کے باپ نے جواب دیا اس کی ماں چھ ماہ ہوئے میکے گئی ہوئی ہے۔ اچھا! چلیں پھر انھیں گھر لے آئیں، تا کہ آپ کا بچہ کسی سے گفت گو تو کر سکے۔ جب میں نے اس بچے کے والد کو یہی بات کہی، تو وہ غصے سے تلملا اٹھے؛ کہنے لگا میں اس عورت کو کبھی واپس لے کر نہیں آوں گا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ بچہ گھر میں ہونے والی ناچاقی کی وجہ سے نفسیاتی طور پر بیمار ہے۔

اس طرح کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں، جن میں والدین بچوں کے بارے میں سوچے سمجھے بغیر آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں اور بچے نفسیاتی طور پر بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ADHD (attention deficit hyper activity disorder) یہ وہ بیماری ہے، جس میں تقریباً 11% بچے مبتلا ہیں۔ مطلب 100 میں سے 11 بچے اس بیماری کا شکار ہیں۔ اس بیماری کی سب سے بڑی وجہ تو گھریلو ناچاقی ہے۔ اس کی عام علامات بچے کا چھوٹی چھوٹی بات پر خفا ہو کر جھگڑا کرنا، ڈرا ڈرا سا رہنا، کسی بھی موضوع پر توجہ نہ دے پانا شامل ہیں۔ جب باپ بچے کے سامنے ماں کو تھپڑ مارے گا تو یقیناً بچہ سہم جائے گا اور اندر ہی اندر ڈرا ڈرا سا رہنے لگے گا، یہ نہ صرف بچے کی صلاحیتوں کو تباہ کر دے گا، بلکہ ہو سکتا ہے بچہ کسی موذی بیماری کینسر میں بھی مبتلا ہو جائے۔

کنڈکٹ ڈِس آرڈر کی بیماری تو اس قدر عام ہے کہ ہر دوسرا بچہ اس کا شکار ہے۔ اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ کونسل کے مطابق ایسے بچے جو والدین کی لڑائیوں کا ذمہ دار خود کو سمجھتے ہیں۔ اکثر کسی موذی بیماری میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں۔ اس ریسرچ میں کئی باتیں واضح تھیں، جن میں یہ بات بھی واضح تھی کہ تقریباً ہر بچہ ہی والدین کے آپس کے جھگڑے سے متاثر ہوتا ہے. میرے معاشرے میں والدین کی آپس میں لڑائی بھی بچوں کی جان لینے کا سبب ہے اور والدین اس بات سے بے خبر اپنے گھریلو معاملات میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اکثر ان گھریلو جھگڑے کی وجہ ایسی شادیاں ہیں جن میں رضا مندی صرف باپ کی انا کی وجہ سے دی جاتی ہے۔

میرا معاشرہ اس بات کو تو تسلیم کرتا ہے کہ اسلام عورت کو پسند کی شادی سے نہیں روکتا، مگر جب عورت پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے، تو پورا معاشرہ اس کے خلاف ہو جاتا ہے۔ خیر پسند کی شادی اس مسئلے کا حل ہے یا نہیں اس بات کو بھی چھوڑ دیا جائے، بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اپنے بچوں کو اپنے لڑائی جھگڑوں سے بچائیں۔ اول تو ان سے سامنے جھگڑا نہ کیا جائے مگر کبھی غصے کی وجہ سے جھگڑا ہو بھی جائے، تو بھی ان معصوم جانوں پر ظلم نہ کرتے ہوئے، جھگڑے کو جلد صلح کر کے ختم کر دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).