وہ کہتی تھی کہ مجھے سانس لینے دو


فون کال رسیو کرتے ہی ڈاکٹر کاشف جاوید شیخ اٹھ کھڑے ہوئے، “ ہمیں ابھی واپس ہسپتال جانا ہو گا“۔ ڈاکٹر کے لہجے میں قطعیت نمایاں تھی۔ ”یار ڈاکٹر ابھی تو میں تمہیں مریضوں کے چنگل سے آزاد کرا کے لایا تھا، رات کے دس بجے ہیں، سامنے بھُنا ہُوا مرغ پڑا ہے اور تم ہسپتال جانے کی بات کر رہے ہو۔ “ میں نے جلدی سے کہا۔ ”کھانا بعد میں کھا لیں گے، ایمر جنسی کیس ہے اینڈ یو نو ڈیوٹی از ڈیوٹی“ ڈاکٹر شیخ نے یہ کہا اور میرا جواب سنے بغیر کار کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ مجبوراً مجھے بھی اس تیز رو کے ساتھ چلنا پڑا۔

قریباً دس منٹ بعد ہم ایمر جنسی وارڈ میں تھے جہاں بیڈ پر ایک اٹھارہ انیس برس کی لڑکی بے ہوش پڑی تھی۔ ایک جونیئر ڈاکٹر اور دو نرسیں اُسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ بیڈ کے قریب بینچ پر ادھیڑ عمر عورت اور مرد بیٹھے تھے جو غالباً اس لڑکی کے ماں باپ تھے۔ عورت اپنی پریشانی اور تکلیف کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے سسک رہی تھی، اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے جبکہ مرد پتھر کے بت کی طرح ساکت تھا۔

کبھی کبھی میں اپنے بچپن کے دوست کو ہسپتال کی زندگی سے نکال کر باہر لے جایا کرتا تھا، ہم کسی ریستوران میں ڈنر کرتے اور پرانی یادیں تازہ کرتے۔ آج بھی ایسا ایک دن تھا لیکن اکثر ہسپتال سے فون آجاتا اور ہمیں یادوں کے ساتھ ساتھ کھانے کا سلسلہ بھی موقوف کرنا پڑتا۔ آج تو ایک لقمہ بھی کھانے کا موقع نہیں ملا تھا۔ کمرے کی فضا میں عجیب پُر سوز اداسی طاری تھی جیسے کوئی بری خبر ملنے والی ہو۔ ہمیں ہسپتال کے دروازے پر ہی پتہ چل چکا تھا کہ لڑکی نے گولیاں کھا کر خود کشی کی کوشش کی ہے۔ اب ڈاکٹر شیخ اس لڑکی کا معائنہ کر رہے تھے۔ نرس لڑکی کی ناک میں پلاسٹک کا ایک باریک پائپ داخل کر رہی تھی گویا معدہ واش کرنے کی تیاری تھی۔ لڑکی کے جسم پر سادہ سا شلوار قمیص تھا، گلے میں بڑا سا دوپٹہ تھا۔ اس کا خوبصورت چہرہ موت کے سکوت کی عکاسی کر رہا تھا۔

میرا دل اضطراب کی شدت سے غیر معمولی طور پر دھڑک رہا تھا۔ کیا اس لڑکی کی موت کا اعلان ہونے والا ہے۔ کیا ابھی ڈاکٹر ”سوری“ کہے گا اور کمرے کی بوجھل فضا آہوں اور سسکیوں سے گونج اٹھے گی۔ میں اس قسم کے حالات سے کبھی گزرا نہیں تھا لہٰذا پریشانی فطری تھی۔ ” کیا یہ بچ جائے گی؟ “ میں نے اپنے قریب کھڑی نرس سے انتہائی دبے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ “ بہت مشکل ہے، بلڈ پریشر اور شوگر سمیت طرح طرح کی پوری چھتیس گولیاں کھائی ہیں اس نے۔ جتنی گولیاں اس کے گھر میں تھیں سب نگل لیں۔ “ نرس نے سرگوشی کی۔

میں نے اس لڑکی کی ماں کی طرف دیکھا جس کی آنکھوں سے آنسو پانی کی طرح بہ رہے تھے اور وہ صاف کرنے کی ذرہ بھی کوشش نہیں کر رہی تھی بس زیرِ لب کچھ پڑھ رہی تھی۔ میں بے اختیار اس کی طرف بڑھا۔ ”فکر نہ کریں ماں جی، آپ کی بیٹی بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ “ اس عورت نے خالی خالی آنکھوں سے ایک نظر مجھے دیکھا پھر اپنے خاوند کی طرف دیکھتے ہوئے کراہتی ہوئی آواز میں بولی۔ ” مولوی صاحب میری بیٹی کو بچا لیں، میری ایک ہی تو بیٹی ہے، میری رمشا میری جان۔ “

مولوی صاحب نے اس پر نظریں گاڑتے ہوئے پتھریلے لہجے میں کہا، “ بیگم کفر نہ بکو، میں کون ہوتا ہوں اس کو بچانے والا۔ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ” یہ کہ کر وہ واپس اپنے پرانے پوز میں ساکت ہو گئے۔ مولوی صاحب شرعی لباس میں ملبوس تھے چہرے پر شرعی داڑھی تھی جو نصف سے زیادہ سفید ہو چکی تھی۔

لڑکی کا معدہ واش کر دیا گیا مگر اس میں کوئی زندگی کی رمق پیدا نہ ہوئی تھی۔ آخر خدا خدا کر کے ڈاکٹر شیخ کے لب ہلے۔ انہوں نے مولوی صاحب کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ گولیاں اثر کر چکی ہیں لیکن امید باقی ہے۔ اگلے چند گھنٹے بہت اہم ہیں، اگر یہ جلد ہوش میں آ گئی تو بچ جائے گی۔ مولوی صاحب ایک گہری سانس لے کر خاموش ہو گئے۔

ایک نرس کوئی دوا لانے کے لئے نکلی تو میں تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس کے ساتھ چل پڑا۔ کچھ پتہ چلا؟ اس نے خود کشی کی کوشش کیوں کی؟ چھوڑئیے کیا ضرورت ہے معلوم کرنے کی۔ اکثر ایک ہی وجہ ہوتی ہے۔ اور وہ آپ بھی جانتے ہیں۔ نرس نے یقینی لہجے میں کہا۔ ”یعنی کوئی لڑکا؟ نہیں مجھے یقین نہیں آ رہا۔ ” میں نے نفی میں سر ہلایا۔ چلیں جب وہ ہوش میں آ جائے تو اُس سے پوچھ لیجیے گا۔ نرس نے غیر جذباتی انداز میں کہا۔ وہ ہوش میں آئے تو پھر ناں۔ میں مضطرب تھا۔

میں اس کی ماں سے بات کرنا چاہتا تھا۔ پھر مجھے موقع مل گیا۔ اس کی ماں جب اکیلی بیٹی کے بیڈ سے لگی بیٹھی تھی میں اس کے پاس گیا۔ اسے تسلی دی لیکن شاید میرے الفاظ میں اتنی تاثیر نہ تھی۔ اس پر کوئی خاص اثر نہ ہُوا۔ پھر میں نے لڑکی کے اقدام کی وجوہات جاننے کی کوشش کی۔ لیکن وہ ماں اپنی بیٹی کے اس قدم کا جواز بتانے سے قاصر تھی۔ اسے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ رمشا نے ایسا کیوں کیا۔ لیکن ایک بات وہ پورے یقین سے کہ سکتی تھی کہ اس میں عشق اور محبت والی کہانی خارج از امکان تھی۔ اس کی ماں کے بقول اس دور میں وہ لڑکی فیس بک، ٹوئیٹر اور انٹر نیٹ سے قطعی انجان تھی۔ اس کے پاس سادہ موبائل بھی نہیں تھا۔ ان کے گھر میں ٹی وی بھی نہیں تھا۔ ان کے گھر مرد کا داخلہ بھی بند تھا۔ رمشا نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی تھی۔ اس سے زیادہ تعلیم کی کبھی ضرورت نہیں سمجھی گئی تھی۔

مجھے نہیں معلوم تھا کہ رمشا کی ماں کو اپنی بیٹی پر اندھا اعتماد تھا یا وہ سب باتیں بڑھا چڑھا کر بیان کر رہی تھی۔ بس میں ابھی تک اقدام خود کشی کہ وجہ کا تعین نہیں کر سکا تھا۔ رات گئے جب میں گھر طرف رواں دواں تھا تو یہی سوچ رہا تھا کہ کل اس لڑکی کو زندہ دیکھ سکوں گا یا نہیں۔ اگلے روز میں اپنے کالج سے چھٹی کے بعد جب گھر جا رہا تھا تو ڈاکٹر شیخ کا فون آ گیا۔ وہ پتہ نہیں کیا بات کرنا چاہتے تھے مگر میں نے ان کے بولنے سے پہلے ہی سوال کر دیا کہ اس لڑکی کا کیا ہُوا؟ وہ بچ گئی ہے مگر حال برا ہے، گولیوں کے ری ایکشن کی وجہ سے خون بے حد پتلا ہو کر اس کے جسم سے رس رہا ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا۔

میں اسے دیکھنے کے لئے ہسپتال کی طرف روانہ ہو گیا۔ ہسپتال کے بیڈ پر اسے سلامت دیکھ کر نہ جانے کیوں ایسا لگا جیسے کوئی اپنا موت کے پنجے سے نکل آیا ہو۔ اس کی آنکھوں میں زندگی کی چمک تھی انتہائی کمزور اور رنجیدہ چہرے پر ایسا سوگوارحسن تھا جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہ تھا۔ میں اب بھی بے چین تھا کہ اتنی پیاری لڑکی کو ایسا کون سا روگ لگا ہے جو اس نے اتنا بڑا قدم اٹھا لیا۔ لیکن اس سے کوئی بھی سوال کرنے کے لئے یہ وقت مناسب نہیں تھا۔ اتنا بہت تھا کہ اس رنگ و نور کی دنیا میں اس کا دل دھڑک رہا تھا، وہ زندہ تھی۔

پھر جب اس کی حالت کچھ سنبھلی تو میں ایک بار پھر اس کے پاس گیا۔ مجھے ہر حال میں اپنے سوال کا جواب چاہیے تھا۔ میں نے بڑی مشکل سے وہ لمحے تلاش کیے جب وہ آسانی سے میرے سوال کا جواب دے سکے اور پھر میں نے سوال کیا، کیوں؟ آخر کیوں؟ وہ کئی لمحوں تک مجھے دیکھتی رہی۔ اس کے لب کپکپاتے رہے۔ وہ پتہ نہیں کیا کہنا چاہتی تھی۔ شاید لفظوں کا انتخاب اس کے لئے مشکل تھا۔ آخر اس کے لبوں سے رندھی ہوئی آواز برآمد ہوئی۔ ” مجھے سانس لینے دو، میرا دم گھٹتا ہے، میں نے کبھی کھڑکی نہیں کھولی، میں نے آسمان کا صرف اتنا حصہ دیکھا ہے جتنا مجھے اپنے کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے نظر آتا ہے، میں نے تو سوچا تھا کہ میں اس دنیا کو دیکھ سکوں گی جو میرے کمرے کی کھڑکی سے باہر ہے، پتہ نہیں وہ دنیا کیسی ہے؟ کیا تمہیں کچھ پتہ ہے؟ بتاؤ ناں وہ دنیا کیسی ہے؟ میری آنکھوں کے سامنے اس کا چہرہ معدوم ہوتا چلا گیا۔ نمی اتنی بڑھی کہ اس نے سارا منظر ہی چھپا لیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).