انصاف ارزاں ہوا ، تاکہ نظام مضبوط رہے
تاہم تین برس تک یہ ریفرنس دائر رہا لیکن سپریم جوڈیشل کونسل کو اس وقت ہی اس شکایت پر کارروائی کرنے کا خیال آیا جس روز جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی عدالت میں آبزرویشن دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ کو زیریں عدالتوں کے فیصلے تبدیل کرنے کا اختیار تو حاصل ہے لیکن چیف جسٹس کسی دوسرے جج کی توہین نہیں کر سکتے‘۔
اس اتفاقی سانحہ کے بعد اس ریفرنس پر کارروائی تو ہوئی لیکن الزامات کا کوئی واضح ثبوت سامنے نہ آسکا۔ تاہم جب 21 جولائی کو جسٹس شوکت صدیقی نے آئی ایس آئی پر مداخلت کے الزامات عائد کئے تو سپریم جوڈیشل کونسل کی قانون پسندی اور انصاف فراہم کرنے کی حس کچھ یوں بیدار ہوئی کہ باقاعدہ شکایت موصول ہوئے بغیر ہی، اس گستاخانہ بیان کا نوٹس لیا گیا اور دو خفیہ سماعتوں میں ہی یہ حکم صادر کردیا گیا کہ ’جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 21 جولائی 2018 کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں خطاب کے دوران ملکی اداروں پر تنقید کرکے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے ‘۔
اس طرح سپریم جوڈیشل کونسل نے الزامات کی تحقیقات کرنے، ان کی نوعیت جاننے اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی چیف جسٹس انور کاسی سے باز پرس کرنے کی بجائے جسٹس شوکت صدیقی کو آئین کی شق 209(6) کے تحت عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کی۔ جس پر ملک کے صدر ڈاکٹر عارف علوی نے فوری طور پر عمل درآمد کرکے تحریک انصاف سے وفاداری ثابت کرنےکے علاوہ ملکی نظام اور عدالتوں کے وقار کو کسی حیل و حجت کے بغیر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔
جس ملک میں فوجداری اور سول معاملات پر عدالتوں سے فیصلے ایک نسل ختم ہونے پر بھی حاصل نہیں ہوپاتے ،جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں اس ملک کی سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعدی اور فرض شناسی کی نادر روزگار مثال قائم کی ۔اور عدالتی تعطیلات حائل ہونے کے باوجود 82 دن کے اندر محض دو مختصر سماعتوں میں ایسے بدزبان جج کو فارغ کرنے کا حکم صادر کیا جو سر عام ایسا سچ بولنے کی غلطی کر بیٹھا تھا جسے چھپانے کے لئے پورا نظام دن رات جمہوریت اور آئین کی بالادستی کا وظیفہ کرتا ہے۔
بلاشبہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے عدالتی کاموں میں دخل اندازی سے انکار کیا تھا اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی نے شوکت صدیقی کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ فوجی ترجمان کے بیان اور الزام کا سامنا کرنے والے چیف جسٹس کی تردید کے بعد غیرجانبدارانہ تحقیقات کروانے اور سچ کو منظر عام پر لانے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی۔ جس جوڈیشل کونسل کے بعض فاضل ارکان کے خلاف ریفرنس سال ہا سال سے زیر غور ہوں ، اسی کونسل کو اس معاملہ میں ازخود نوٹس لینے اور قلیل مدت میں ایک جج کو فارغ کرنے کی آخر کیا جلدی تھی۔
اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس انور کاسی کے خلاف دو برس سے چار شکایات زیر غور تھیں لیکن جوڈیشل کونسل کو ان پر فیصلہ کرنے کا وقت نہیں مل رہا تھا۔ تاہم جسٹس شوکت صدیقی کو معزول کرنے کے فوری بعد جسٹس کاسی کے خلاف شکایات کو مسترد کرنے کا حکم دینا ضروری سمجھا گیا۔ حالانکہ وہ ایک ماہ بعد ریٹائر ہونے والے ہیں۔ اس فیصلہ کے لئے حسب روایت چند برس مزید انتظار بھی ہو سکتا تھا یا یہ معاملہ مستقل سرد خانہ کی زینت بھی بنا رہ سکتا تھا۔ تاہم شوکت صدیقی کے کردار کی کمزوری کو نمایاں کرنے کے لئے شاید جسٹس کاسی کی دیانت داری اور اعلیٰ کردار کی ضمانت فراہم کرنا ضروری تھا۔
ملک کی عدالتوں اور ججوں نے کبھی آئین کے محافظ کا کردار احسن طریقے سے ادا نہیں کیا۔ اب سپریم جوڈیشل کونسل کو ملک کی ایسی خفیہ ایجنسی کی نیک نامی کا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے جس کے خلاف سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی رائے کی بنیاد پر انسانی حقوق پامال کرنے کے سنگین الزامات عائد ہوتے رہتے ہیں۔ ملک کی عدالتوں کو کبھی ان شکایات کے ازالہ کا وقت نہیں ملا۔ ان میں سے ایک معاملہ سابق وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا سیاہ فیصلہ بھی ہے جسے ملک کی منتخب قومی اسمبلی متفقہ طور پر عدالتی قتل قرار دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ نے بھٹو کیس میں سابق صدر آصف زرداری کی طرف سے نظر ثانی کے ریفرنس میں کوئی پھرتی دکھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔
جس نظام کو بچانے کے لئے جوڈیشل کونسل، صدر مملکت اور وزارت قانون نے مل کر چند گھنٹوں میں ایک ناپسندیدہ شخص کو علیحدہ کیا، ا س ملک کے بیشتر مسائل اسی نظام کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس نظام کو بچانے کی کوششیں اب اسے گرانے کے عمل کا نقطہ آغاز بن رہی ہیں۔
- کیا سیاسی استحکام کے بغیر معیشت ٹھیک ہو سکتی ہے؟ - 18/04/2024
- فیض آباد دھرنا رپورٹ: شہباز شریف استعفیٰ دیں - 16/04/2024
- ایرانی حملوں کے بعد اسرائیل ’ناقابل تسخیر‘ نہیں رہا - 15/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).