یادش بخیریا اور صومالی عرفیتیں


انگریزی کے لفظ ”ناسٹیلجیا“ کا کوئی مناسب اردو متبادل ذہن میں نہیں ہے۔ محترم مشتاق احمد یوسفی صاحب نے اسے ”یادش بخیریا“ کا نام دیا تھا۔ جو تھوڑا بہت سوانحی ادب مختلف زبانوں میں پڑھنے کا موقع ملا ہے اس میں ”یادش بخیر“ کا تاثر غالب نظر آیا۔ محترم انتظار حسین مرحوم کی ”ڈبائی“، محترم قدرت اللہ شہاب کا ”چمکور“، فرینک میک کورٹ کا آئر لینڈ، یہ سب بظاہر معمولی مقامات ان کی تحریروں میں اسطورے کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ آج کل محترم مبشر علی زیدی اپنی ”انچولی“ کا ذکر کرتے ہیں تو یہی یادش بخیریا اول تا آخر ان کے مضامین پر چھایا نظر آتا ہے۔

اس خادم کو اپنی جنم بھومی کوئٹہ سے نکلے دہائی سے اوپر بیت گیا ہے لیکن سچ پوچھیں تو وہاں موجود دوستوں، رشتہ داروں اور شاگردوں سے سوشل میڈیا پر روابط کے سبب اس قسم کی یاد آوری طاری نہیں ہوتی جو ان ناسٹیلجک تحریروں کا جوہر ہے۔ اس کا سبب ایک واقعہ ہے۔

ہوا یوں کہ تعلیم کے بارہویں سال میں چند اساتذہ کے ساتھ ناخوشگوار کشاکش کے سبب اس خادم اور یارِ دیرینہ سعد اللہ خان کو کالج سے کچھ اس طور سے خارج کر دیا گیا کہ ہم دونوں پاکستان کے کسی تعلیمی بورڈ سے تین برس تک امتحان دینے کے لیے ناہل قرار دیے گئے۔ وہ دوپہر کبھی نہیں بھولے گی کہ ہم دونوں کالج کی پارکنگ میں انتہائی مایوسی اور خوف کے عالم میں بیٹھے اس بات پر اتفاق کر رہے تھے کہ اس سے بُرا دن زندگی میں دوبارہ نہیں آئے گا۔ خیر، طلباء برادری کے بے نظیر احتجاج اور مکمل انصاف پسند پرنسپل صاحب کی چھٹی سے واپسی پر ہماری بحالی ہو گئی اور زندگی پھر سے اپنے ڈھرے پر واپس آ گئی۔

اس کے دو سال بعد یہ قصباتی طالب علم انجینینئرنگ کی تعلیم کے لیے کراچی آ گیا تو پہلی بار ایک نفسا نفسی پر مبنی سماجی ڈھانچے، شور و غُل اور بے محابا مصروف زندگی سے پالا پڑا جس سے اچھا خاصا نفسیاتی جھٹکا لگا۔ ہر دم کوئٹہ یاد آتا تھا اور کراچی کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔ کہاں وہ وقت کہ جناح روڈ سے گزرو تو ایک سرے سے دوسرے سرے سرے تک سلام کرتے اور جواب دیتے ہاتھ نیچے نہیں آتا تھا، اور کجا یہ شہر کہ جہاں تپاک سے گلے ملنے کے جواب میں لوگ بمشکل ہاتھ ملاتے تھے۔

رفتہ رفتہ کچھ ہم کانِ نمک میں نمک ہو گئے تو کچھ شیریں مزاج لوگ نئے شہر میں بھی اپنی طبیعت کے مل گئے تو جی کچھ بہل گیا۔ انہی نئے دوستوں میں بیٹھے گپیں مارتے ایک روز ماضی قریب کا ذکر چھِڑ گیا تو اس خادم نے کالج سے نکالے جانے کا قصہ بہت مزے لے لے کر سنایا گویا کوئی بہت خوش گوار یاد ہو۔ اچانک خیال آیا کہ وہ دن اُس وقت کس قدر گراں گزر رہا تھا اور آج اس کی یاد لُطف دے رہی ہے۔ جس کراچی کو آج کوس رہے ہو، عین ممکن ہے دس بیس سال بعد گنجے سر اور پوپلے منہ والا عثمان قاضی انہی دنوں کے کراچی کے قصے سنا کر لُطف اٹھا رہا ہو۔ بس آنِ واحد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ سب سے اہم لمحہ، لمحہِ موجود ہے اور سب سے اہم مقام موجودہ جگہ ہے، کہ بس یہی کُچھ ذرا سی دیر کے لیے مُٹھی میں ہے۔ یہی حقیقت ابنِ انشا نے بیان کی ہے کہ

بیتا کل تو جیسا بیتا اس کا ذکر اکارت ہے
آنے والے کل کے پیچھے آج کا دن کیوں غارت ہے
جھوٹی فکریں، سچی فکریں، اونچی ایک عمارت ہے

اور اسی کو کچھ اہلِ طریقت حُزن اور خوف دونوں سے نجات کی کنجی قرار دیتے ہیں۔ تب سے یہ خادم کوشش کرتا ہے کہ ماضی کے غم اور مستقبل کے خوف، دونوں سے بے نیاز ہو کر آج کے دن میں جینے کی کوشش کی جائے۔ کبھی کامیابی ہوتی ہے کبھی بشری کمزوری کے سبب ناکامی۔

معذرت کہ جملہ ہائے معترضہ طول کھینچ کر آدھے مضمون پر محیط ہوگیا۔ بات چلی تھی محترم مبشر علی زیدی کی انچولی کی یادداشتوں سے۔ ہرچند کہ ان کا ایک ایک فقرہ داد طلب ہوتا ہے لیکن اس خادم کو انچولی میں لوگوں کو دی جانے والی عرفیتوں کا بیان سب سے دل چسپ لگا۔ ایک تو یہ اعتراف کہ یہ خادم شروع سے عرفیت دیے جانے سے محروم یا محفوظ رہا۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس فنِ لطیف میں خادم خود یدِ طولی رکھتا تھا۔ جب دانے پانی کی کشش نے شہر بہ شہر، ملک بہ ملک پھرانا شروع کیا تو عرفیتوں کے حوالے سے چند در چند دل چسپ مشاہدات ہوئے۔

عربوں کے ناموں کا ذکر پچھلے مضامین میں ہو چکا ہے۔ صومالیہ بھی عرفیتوں کے حوالے سے زرخیز جگہ ہے۔ صومالیہ میں اکثر لوگوں کے نام عربی یا اسلامی نوعیت کے ہوتے ہیں مگر ان میں ذرا سا تصرف کر لیا جاتا ہے۔ محمد، عمر، عثمان، عمر، اسحاق وغیرہ تو ویسے ہی رہتے ہیں مگر عبداللہ ”عبداللہی“، عبدالوہاب ”عبدِ وہاب“ ہو جاتا ہے۔ لڑکیوں میں فاطمہ ”فادومو“ بن جاتی ہے۔ ان کے علاوہ مقامی نام بھی خوب صورت معانی کے حامل ہیں۔ مثلا ”روبلے“ یعنی بارش، ”گیدی“ وہ بچہ جو رات کو پیدا ہوا۔ ”گُرّے“ وہ لڑکا جو دوران سفر تولّد ہوا، وغیرہ۔ لیکن ان کے علاوہ عرفیتیں بھی عام ہیں جو کسی جسمانی پہلو، اکثر نقص پر مبنی ہوتی ہیں۔

ہماری حفاظت پر مامور صاحب محمد ”ڈیرے“ کہلاتے تھے جو ان کی طویل القامتی کے سبب تھا۔ ایک روز ایک صوبائی وزیر صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اچھے خاصے ثقہ آدمی تھے اور ایک لمبا سا نام از قسم ”محمد احمد عبداللہی حسین“ رکھتے تھے۔ اس خادم نے پوچھا کہ عزّت مآب، آپ کو کیا کہہ کر پکارنا مناسب ہوگا؟ محمد، احمد، عبداللہی، یاحسین؟ بولے، آپ مجھے آسانی کے لیے ”فنّاح“ کہہ کر پکار سکتے ہیں۔ ہوچھا کہ کیا یہ آپ کا قبائلی یا خاندانی نام ہے؟ فرمایا، میرے سامنے کے اوپری دانتوں میں یہ خلا دیکھ رہے ہو؟ اسے صومالی میں فنّاح کہتے ہیں۔ اس خادم نے گزرش کی کہ ایسی بے ادبی کیوں کر کر سکتا ہوں، مگر وزیر موصوف نے اصرار کیا کہ انہیں خوشی ہوگی اگر انہیں اس نام سے پکارا جاے۔

جب تازہ تعیناتی ہوئی تو قیام گاہ کا کچھ مسئلہ تھا۔ جو ہم کار چھٹی پر جاتا، اس خادم کو اس کے کمرے میں گُھسا دیا جاتا۔ جب سوٹ کیس دھکیلتے دھکیلتے دل تنگ ہو گیا کہ۔ انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں۔ تو ہماری سیکریٹری مِسکی بی بی نے مشورہ دیا کہ عثمان جیری نامی اہل کار سے رابطہ کیا جاے تو وہ مسئلے کا کوئی حل نکال لیں گے۔ ان کا برقیاتی ڈاک کا پتا بھی عنایت کیا۔ اس خادم نے ازراہ تکلف، ”جناب جیری صاحب“ کا طرزِ تخاطب اختیار کیا اور انہیں لکھ کر اپنے مسئلے سے آگاہ کیا۔ وہ اس قدر فرض شناس نکلے کہ فورا فون پر رابطہ کیا اور ایک مستقل کمرے کا بندوبست ہوگیا۔ آتے جاتے ان سے چہرہ شناسی بھی ہو گئی۔

کچھ عرصے بعد غور کیا کہ عثمان صاحب کے برقیاتی ڈاک کے پتے میں عثمان محمد احمد تو موجود ہے، ”جیری“ کا ذکر نہیں۔ سو ایک روز بہت سے رفقائے کار کی موجودگی میں پوچھ لیا کہ وہ جیری کیوں کہلاتے ہیں؟ نہایت رسان سے گویا ہوئے کہ مجھے بچپن میں پولیو ہو گیا تھا جس کی وجہ سے میں لنگڑاتا ہوں اور لنگڑے کو صومالی میں ”جِیری“ کہتے ہیں۔ یہ خادم تو یوں جانیے کہ زمین میں گڑ گیا اور ان سے اس ان جانی بد اخلاقی کی دست بستہ معذرت چاہی مگر وہ بالکل پُر سکون بلکہ ایک درجہ پُر مزاح مزاج میں رہے۔ یہ خادم اس کے بعد احتیاط کرتا رہا مگر کرنا خدا کا کیا ہوا کہ عثمان صاحب کو ایک برادر ادارے میں بہتر نوکری مل گئی۔ انہوں نے اپنے الوداعی پیغام میں سب کا رسمی شکریہ ادا کیا اور اپنا شخصی برقیاتی ڈاک کا پتا بھی عنایت کیا جس میں ان کے نام کے ساتھ لفظ ”جیِری“ آب و تاب کے ساتھ موجود تھا۔

ایک نارویجن ہم کار کے بائیں ہاتھ کی ایک انگلی کسی حادثے کے سبب کٹ گئی تھی۔ دفتر والوں نے انہیں ”فرّے“ کہنا شروع کر دیا جس کا مطلب ”انگلیوں والا“ ہے۔ ویسے ہی جیسے ہمارے ہاں اندھے کا نام ”نین سُکھ“ یا ”بصیر“ رکھ دیا جاے۔ صومالیہ میں بھی جس خاتون کا رنگ معمول سے زیادہ گہرا ہو، اسی صنعتِ تضاد کے تحت شمسہ، بلکہ مقامی تلفظ میں ”شمسو“ نام پاتی ہے۔ چند ماہ بعد خیال آیا کہ میاں، سب کی کوئی نہ کوئی عرفیت ہے۔ ضرور تمہیں بھی یہ لوگ کچھ کہہ کر پکارتے ہوں گے۔

سو ایک روز مِسکی بی بی سے چار چھے دوسروں کی موجودگی میں پوچھا کہ بتاؤ میری عرفیت کیا ہے۔ اس نے زور و شور سے انکار کیا کہ کچھ نہیں، مگر آنکھ کے گوشے اور ہونٹ کے کونے پر مچلتی مسکراہٹ کچھ اور کہہ رہی تھی۔ جب ذرا سختی سے اور بُرا نہ ماننے کی یقین دہانی کے ساتھ پوچھا تو جواب ملا ”عثمان بِدار“۔ احباب سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ“بِدار“ صومالی میں ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کے سر پر روئیدگی اس خادم کے مانند روبہ زوال ہو۔ اب بلادِ الشام میں یہ آرام ہے کہ عرفیت کا رواج کم ہے البتہ کنیت کا دور دورہ ہے، سو یہ خادم یہاں ”ابو حسین“ کہلاتا ہے اور اصل نام اور کنیت کے امتزاج کے سبب ہر قسم کے مومنین میں یکساں مقبول ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).