کس نام سے پکاروں؟


کہنے کو تو اردو زبان ہمیشہ سے تہذیب اور اخلاق کا استعارہ رہی ہے۔ کہنے کو تو یہ میر کی سہیلی اور مومن کی چہیتی رہی ہے۔ کہنے کو زبان اردو پر غالب کا سایہ فگن ہے، کہنے کو تو زبان اردو سودا کی میراث ہے۔ کہنے کو تو یہ منٹو کا اعزاز ہے، کہنےکو تو یہ فیض کا طرہ امتیاز ہے ، کہنے کو یہ فراز کا سہرا ہے، کہنے کو تو یہ جالب کی جاگیر ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود اس زبان نے کچھ حوالوں سے ایسے استعارے ہمیں تفویض کیے ہیں جہاں تہذیب اور اخلاق تو چھوڑیے بات انسانی قدروں سے بھی گر جاتی ہے۔ ایسی تقسیم شاید نہ کسی اور زبان میں موجود ہے نہ ہی دنیا کے کسی اور خطے میں زبان کا استعمال ایسے قبیح مفاہیم میں ہوتا ہے۔ زیر نظر کالم زبان اردو کے ایک ایسے ہی پہلو کی طرف نشان دہی کرے گا۔ اس کالم میں چند ایسے الفاظ اور مرکبات کا استعمال ہو گا جن کا استعمال مجھے ذاتی طور پر کسی طرح بھی مناسب نہیں سوجھتا مگر بعض اوقات زخم کی گہرائی کا اندازہ کرنے کے لیے نشتر زنی درکار ہوتی ہے۔ یہی نشتر زنی اس کالم کا مقصد ہے۔

معذور افراد کے حوالے سے ہمارے ہاں رائج جتنے بھی الفاظ، تراکیب، استعارے اور محاورے ہیں ان تمام میں تضحیک کا پہلو ضرور نکلتا ہے۔ کسی کی دل شکنی مقصود ہو، کسی کا تمسخر اڑانے کا عندیہ ہو، کسی کی توہین درکار ہو تو انھی استعاروں کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ بات اس حد تک ظالمانہ ہو چکی ہے کہ اس کے ذریعے پہنچنے والے زخم کا درد بھی ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔ خون بھی رِستا نظر نہیں آتا۔ آنسو بھی گرتے نظر نہیں آتے۔ آہیں بھی سنائی نہیں دیتیں۔

دنیا بھر میں معذوری کی چار اقسام ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جو بینائی نہ ہونے کے مسئلے سے دو چار ہیں۔ دوسری قسم قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کی ہے۔ ایک معذوری جسمانی معذوری کہلاتی ہے اور معذوری کی آخری اور سب سے تکلیف دہ نوعیت ذہنی معذوری ہے۔ دنیا بھر میں معذور افراد کو انھی چار بنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں ان معذوریوں کے حوالے سے زبان کے استعمال پر بہت توجہ دی گئی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں اس نظر انداز طبقے کے بارے میں لسانی تعصب برتا جاتا ہے وہ از حد تکلیف دہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اس تکلیف دہ رویے کا موجب عام آدمی کم ہی ہوتا ہے بلکہ اس میں اس قوم کے دانشوران کرام اور میڈِیا بڑی حد تک مورد الزام ٹھرایا جاتا ہے۔ انھی کے ذریعے یہ الفاظ اور استعارے عوام تک پہنچتے ہیں انھی کے ذریعے یہ روزمرہ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ میری اس کالم میں کوشش ہو گی کہ ان الفاظ کی طرف نشان دہی کروں جو اس توہین کا سبب بنتے ہیں۔ تضحیک کا موجب بنتے ہیں۔ تمسخر کی وجہ کہلاتے ہیں۔

نابینا افراد کا المیہ یہ ہے کہ یہ دنیا اور اس کے رنگ ان کو دکھائی نہیں دیتے ۔ یہ کیفیت کسی بیماری کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور کبھی’’کزن میریج‘‘کی وجہ سے موروثی طور پریہ بیماری کسی خاندان میں اسطرح سرایت کر جاتی ہے کہ نسلیں کی نسلیں بینائی سے محروم ہو جاتی ہیں ، کبھی کوئی حادثہ اس بیماری کا موجب اور کبھی کسی غلط دوا کا استعمال اس طرح کے حادثے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن سماجی طورپر نابینا افراد کو پکارنے کے لیے ہمارے پاس ایک ہی لفظ ہے اور وہ ہے ’’اندھا یا کانا‘‘۔ یا پھر ہم بڑی تسلی سے اس مصرِع میں تفنن کا پہلو ڈھونڈتے ہیں کہ’’اندھے کو اندھیرے میں بہت دُور کی سوجھی‘‘ ان سب تراکیب اور ان کے استعمال سے اس معذوری کے حوالے سے نفرت اور بغض کی بو آتی ہے۔ ہم اس قدر ظالم لوگ ہیں کہ ایسے الفاظ استعمال کرتے زرا بھر یہ نہیں سوچتے کہ یہ توہین آمیز الفاظ کسی معذور شخص کا سینہ چیر دیتے ہوں گے۔ برسوں تک اس کے سینے پر کچوکے لگاتے ہوں گے۔یاد رکھیے درست لفظ نابینا ہے ’’اندھا ‘‘ نہیں۔

اسی طرح قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لیے ہمارے پاس عام استعمال کا واحد لفظ ’’گونگا اور بہرا‘‘ ہے۔ ہم اس توہین آمیز لفظ کا استعمال اس بے دریغ طریقے سے کرتے ہیں کہ کبھی نظام کو اس سے موسوم کرتے ہیں، کبھی قانون کو اور کبھی شقی القلب حکمرانوں کو اور کبھی نظام تعلیم کو ’’گونگا اور بہرا‘‘ کہہ کر شتاب ہوتے ہیں۔ غرض ہمیں جہاں کسی کو حقیر ثابت کرنا ہو ہم اسے ’’گونگا اور بہرا ‘ کہیں گے۔ اس سارے واقعے میں ایک لمحے کے لیے بھی ہمارے ذہن میں وہ لوگ نہیں ہوں گے جو سماعت و گویائی سے محروم ہیں۔ ان کے دل پر کیا گزرتی ہے اس کا نہ ہم نے کبھی سوچا ہے نہ اس تکلیف تک ہمارے ذہن کی رسائی ہوتی ہے۔ یاد رکھیں درست لفظ قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد ہے ’’گونگا اور بہرا‘‘ نہیں۔

جسمانی معذور افراد کو اس معاشرے میں ’’لولا ، لنگڑا یا ٹونڈا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ وہیل چیئر اور بیساکھی استعمال کرنے والے افراد کی اس سے زیادہ توہین کیا ہو سکتی ہے۔ اب ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ ہم ’’لولا اور لنگڑا‘‘ کن معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مخالفین پر رکیک حملے کے لیے استعمال ہونے والے یہ لفظ کسی کی عمر بھر کی مجبوری اور معذوری ہوتے ہیں۔ معذوری کی تکریم بہت ضروری ہے، اس کی توہین سے اجتناب کرنا چاہیے۔ درست لفظ جسمانی معذور ہے ’’لولا لنگڑا یا ٹونڈا ‘‘نہیں۔

معذوری کی سب سے تکلیف دہ قسم ذہنی معذوری ہے۔ اس کی اقسام میں ڈپریشن بھی ہے اور اس کی مختلف سطحیں ہیں۔ یہ واحد معذوری ہے جس کا کوئی حل نہیں، نابینا افراد کے لیے سفید چھڑی، قوت سماعت و گویائی کے لئے سماعت و گویائی کے آلات اور جسمانی معذرور افراد کے لیے وہیل چیئر موجود ہیں مگر ذہنی معذور افراد کے لیےدنیا بھر میں کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ اس معذوری میں معذور فرد کا ذہن اس کے اختیار میں نہیں ہوتا اور بد قسمتی سے ایسے افراد کے لیے اس معاشرے میں واحد لفظ ’’پاگل‘‘ ہے۔ ہر برے کام کو ہم اس معاشرے میں ’’پاگل پن‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ہر مختلف سوچ رکھنے والے کی توہین ’’پاگل‘‘ کہہ کر کرتے ہیں۔ خدارا اس بات کو سمجھیں کہ درست لفظ ذہنی معذور ہے ’’پاگل‘‘ نہیں۔

دنیا بھر میں ایسے افراد کو ا سپیشل کہنے کی مہم چلی تھی مگر ہم اپنے معذور افراد کو ا سپیشل کہنے کے بھی حق دار نہیں۔ یہ اختیار ان قوموں کو حاصل ہے جو ایسے افراد کو ا سپیشل سمجھتی ہیں اور ان سے ا سپیشل برتاو کرتی ہیں۔

مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ گرما گرم سیاست کے دور میں اس طرح کے موضوعات پر قارئین کی نظر نہیں پڑتی مگر اس کے باوجود اگر اس تحریر کے نتیجے میں چند لوگ ہی اپنی تحریر اور کلام میں معذور افراد کے حوالے سے محتاط ہو جائیں تو یہ بہت بڑی کام یابی ہو گی۔ اس سےبہت سے دکھی دلوں کے غم کا مداوا ہو گا۔

(بشکریہ روزنامہ جنگ)

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar