کیا امریکہ پسپائی کے لیے تیار ہے؟


ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے عالمی سطح پر ایک سپر پاور کا مقام حاصل کرنے اور اس کو برقرار رکھنے کے لئے جن عناصر پر بھروسا کیا، ان میں سے ایک اہم ترین عنصر اس کی بے پناہ معاشی طاقت تھی۔ اس بے پناہ معاشی طاقت کا اظہار دوسری چیزوں کے علاوہ غیر ملکی امداد کی شکل میں ہوا۔ اس امداد کو عرف عام میں ”یو ایس فارن ایڈ“ کہا جاتا ہے۔ اس بیرونی امداد سے مراد وہ دولت ہے، جو امریکہ نے عالمی سطح پر خرچ کی۔ امریکہ کی معاشی خوشحالی اور ملکی سلامتی دو ایسے معلوم مقاصد تھے، جو اس امداد کے ساتھ جڑے تھے، اور جن کی عوام کے سامنے وضاحت کی گئی۔

لیکن در حقیقت اس غیر ملکی امداد کے پس منظر میں جو اصل اہم مقاصد تھے، ان کو عوام کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ ان میں ایک سب سے بڑا مقصد اس وقت کی دنیا کی دوسری بڑی سپر پاور یعنی سوویت یونین اور سوشلزم کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس وقت سوویت یونین کا نظریہ اشتراکیت تھا، جو اپنے مقاصد اور اہداف کے حوالے سے بڑا واضح تھا۔ دنیا میں جہاں جہاں غربت و بے روزگاری تھی۔ لوٹ کھسوٹ اور جبر کا راج تھا۔ وہاں پراس طرح کے نئے انقلابی نظریات بڑے مقبول ہو رہے تھے۔

دنیا میں ان نظریات کے پرچم تلے انقلاب برپا کر کے ایک نیا منصفانہ نظام قائم کرنے کے خواب دیکھے اور دکھائے جا رہے تھے۔ چنانچہ اس نظریے کی وجہ سے پورے مغرب میں اور مغربی یورپ میں بالخصوص اشتراکیت کا خوف طاری تھا۔ مارکسی زبان میں یورپ پر کمیونزم کا بھوت منڈلا رہا تھا۔ اشتراکی نظریات بڑی تیزی سے عوامی تحریکوں کی شکل اختیار کر رہے تھے۔ ان حالات میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے لیے سوویت یونین کی فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی معاشی اور نظریاتی میدان میں بھی سوشلزم کے مقابلے میں سرمایہ داری کا دفاع کرنا تھا۔

ان سماجی اور معاشی نظریات کا مقابلہ بھی کرنا تھا، جو امریکی دانشوروں کے خیال میں اشتراکیت کے پھیلنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے تھے۔ چنانچہ امریکہ نے ایسے معاشی پیکیج دینے کا اعلان کیا، جو ان ملکوں سے بے روزگاری اور افراتفری کے خاتمے، معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام کا باعث بن سکیں۔ اس کی ایک بڑی مثال امریکہ کا مشہور مارشل پلان تھا، جس کا فوکس مغربی یورپ کے وہ ممالک تھے، جو اس وقت سخت قسم کی معاشی بحران اور افراتفری کا شکار تھے۔

مارشل پلان کے نام سے یہ بڑا منصوبہ دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد شروع کیا گیا، جو اس وقت کے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ جارج سی مارشل کے نام سے منسوب تھا۔ مارشل پالان بنیادی طور پر تھا ہی سویت یونین کے خلاف، لیکن اس عام تاثر کو ختم کرنے کے لیے امریکہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہماری پالیسی کسی ملک کے خلاف نہیں ہے۔ نہ ہی ہم کسی نظریے کے خلاف ہیں۔ ہم بھوک، ننگ اور مایوسی کے خلاف ہیں۔ مارشل پلان کو سرکاری سطح پر ”یورپ ریکوری پروگرام“ کا نام دیا گیا۔

اگلے چند برسوں میں امریکہ نے اس پلان کے تحت 17 یورپی ممالک کی مدد کی۔ ان ممالک سے معاشی اور انسانی بحران ختم کرنے کے لیے تیرہ بلین ڈالر کی امداد دی گئی۔ یہ اس وقت ایک خطیر رقم تھی۔ اس خطیر رقم سے ظاہر ہے کسی حد تک یورپی ممالک کی معیشت بھی بحال ہوئی اور وہاں موجود انسانی بحران پر بھی قابو پایا گیا، لیکن اس خطیر سرمایہ کاری سے ریاست ہائے متحدہ امریکا نے جو فوائد سمیٹے، وہ کہیں گنا زیادہ تھے۔ اس پلان کے نتیجے میں امریکہ کو وسیع و عریض یورپین مارکیٹ کے اندر اپنی مصنوعات فروخت کرنے کا موقع ملا، جو اگے چل کر امریکی مصنوعات کی یورپی منڈیوں میں کھپت کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا۔

اس منصوبے کی دیگر فوائد میں اہم ترین فائدہ یہ بھی تھا کہ اس کی وجہ سے سویت فوجی طاقت کے خلاف نیٹو کی شکل میں ایک مضبوط فوجی اتحاد بنا۔ اس فوجی اتحاد میں ان 13 یورپی ممالک نے مکمل شمولیت اختیار کی، جن کی تازہ تازہ ترقی، خوشحالی اور استحکام امریکی مارشل پلان کا مرہون منت تھا۔ چنانچہ امریکہ نے مارشل پلان کے تحت مغربی ممالک میں، جو اخراجات کیے، وہ سیاسی ایجنڈے کے بغیر نہیں تھے۔ اس ایجنڈے کے تحت ایک منتشر اور جنگ کی تباہ کاریوں کے شکار ممالک کی جگہ ایک مضبوط مغربی یورپ معرض وجود میں آیا، جو سوویت یونین کے خلاف امریکہ کے لیے لیے صف اول کا ”بیس کیمپ“ بن گیا۔

مارشل پالان اتنے بڑے سکیل پر امریکہ کی طرف سے پہلا تجربہ تھا، جو بہت حد تک کامیاب ثابت ہوا۔ اور اس کے فوری اثرات اس واضح ہونے شروع ہوئے۔ اس کامیاب تجربے کی روشنی میں امریکہ نے سوویت یونین کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید اس طرح کے پروگرام سامنے لانے شروع کیے۔ ان میں سن انیس سو انچاس میں ”چار نکاتی پروگرام“ اور سن انیس سو اکیاون میں ”باہمی سکیورٹی پروگرام شامل تھے، جن کے تحت یورپی ممالک کو امریکہ کی طرف سے فوجی معاشی اور تکنیکی مدد فراہم کی گئی، تاکہ یورپ میں کمیونزم کے پھیلاؤ کا راستہ روکا جا سکے، اس طرح یہ سلسلہ ایک باقاعدہ ادارے کی شکل اختیار کر گیا۔

اور آگے چل کر امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی کے نام سے ایک باقاعدہ ایجنسی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ انیس سو ستر کے بعد جتنی بھی غیر ملکی امداد دی گئی، اس کا واضح مقصد اشتراکیت کو روکنا اور یورپ کے علاوہ تیسری دنیا کی ایسی تمام ریاستوں کی فوجی اور معاشی مدد کرنا تھا، جو اس جنگ میں امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کے لئے تیار تھے۔ اس طرح آگے چل کے یورپ کے علاوہ جن ممالک کو بہت زیادہ مدد دی گئی، ان میں مصر و اسرائیل وغیرہ شامل تھے۔

سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس امداد کی مقدار میں بتدریج کمی آئی اور امداد کے ساتھ جڑے مقاصد بھی تبدیل ہو گئے۔ یہاں تک کہ انیس سو چھیانوے میں یہ امداد امریکی بجٹ کے ایک فیصد سے بھی کم ہو گئی۔ اس طرح اگر اس وقت دیکھا جائے تو عام خیال کے برعکس امریکہ کی بیرونی امداد اس کے کل بجٹ کے ایک فیصد سے بھی کم ہے، جو دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے، مثال کے طور پر انگلستان اور سویڈن وغیرہ کی بیرونی امداد ان کے بجٹ کے تناسب سے امریکہ سے زیادہ ہے۔

اس طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کی بیرونی امداد میں کٹوتی سے بطور سپر پاور اس کے تسلط اور اثر و رسوخ میں کمی واقع ہوئی ہے، جو ملٹی پولر دنیا کے ابھرنے کا باعث بنے گی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو، لیکن دوسری طرف اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ امریکہ نے اپنے فوجی بجٹ میں کمی نہیں، بلکہ اضافہ کیا ہے۔ امریکی ڈیفینس ڈیپارٹمنٹ نے سال دو ہزار بائیس کی مالی سال کے لیے کانگرس سے سات سو پندرہ بلین ڈالر مانگے ہیں، جو دو ہزار اکیس سے دس بلین ڈالر زیادہ ہیں۔

امریکہ نے فارن ایڈ میں جو کمی کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس کا مقابلہ کسی سویت یونین، سوشلزم یا انقلابی تحریکوں سے نہیں ہے۔ یہ امداد دینا اب اس کی مجبوری نہیں رہی۔ اس لیے اس نے معاشی اور انسانی بحرانوں پر اخراجات میں کمی کی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ سپر طاقت اپنی فوجی برتری سے دستبردار ہونے کے لیے بھی تیار ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments