مہاتیر محمد نے کیا کہا ؟


لیکن آج پندرہ برس بعد دنیا پہلے سے زیادہ ابتر دکھائی دے رہی ہے۔ ایک عالمی اقتصادی، سماجی و سیاسی بحران  ہے۔ دو بڑے ممالک (امریکا اور چین) کی تجارتی جنگ سے باقی دنیا اذیت میں ہے۔ پر اس سے بھی سنگین بحران سیاسی ہے۔ خود کش بم بار پھٹ رہے ہیں ، سیاحوں کے ہجوم پر گاڑیاں چڑھائی جا رہی ہیں، لوگوں کے سر تن سے جدا کیے جا رہے ہیں۔ پناہ کی تلاش میں سرگرداں لاکھوں لوگوں پر دروازے بند کیے جا رہے ہیں، کئی تو کھلے میں سردی سے ٹھٹھر کے مر جاتے ہیں یا وبائی امراض کا نشانہ بن رہے ہیں۔ غرض کوئی ملک کوئی انسان محفوظ نہیں۔

زرا سے شک پر کہیں بھی پوچھ گچھ اور حراست ممکن ہے۔ ہر طرح کے حفاظتی اقدامات، ٹیکنالوجی، کیمروں اور دیگر آلات کے بے تحاشا استعمال کے باوجود دہشت گردی قابو میں نہیں آ رہی کیوں کہ اس کی بنیادی وجوہات کے خاتمے اور دل و دماغ جیتنے میں دل چسپی بہت کم ہے۔

انیس سو اڑتالیس میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے لیے فلسطینی زمین پر قبضہ ہوا، قتلِ عام ہوا، گھروں اور کھیتوں پر قبضہ ہوا اور ایک پوری آبادی کو سرزمین سے نکال دیا گیا۔ مزید اراضی ہتھیائی گئی اور اس پر زیادہ سے زیادہ یہودی بستیاں آباد کی گئیں۔ فلسطینیوں نے پتھروں اور غلیلوں سے مزاحمت کی تو گولیاں ماری گئیں، ہزاروں گرفتاریاں ہوئیں۔ اور پھر روائتی جنگ لڑنے سے قاصر مایوس اور غصے سے بھرے لوگوں نے وہ راستہ اختیار کیا جسے آپ دہشت گردی کہتے ہیں۔

مگر دنیا کو کوئی پروا نہیں ہوتی جب اسرائیل بین الاقوامی قوانین توڑتا ہے، دوائیں، خوراک اور تعمیراتی سامان لانے والے جہازوں کو بین الاقوامی سمندر میں ضبط کرتا ہے۔ فلسطینی جب ایسے ناکارہ راکٹ فائر کرتے ہیں جن سے کوئی جانی مالی نقصان نہیں ہوتا تو بدلے میں اسرائیل سکونتی علاقوں، اسکولوں، اسپتالوں پر راکٹ اور بم برساتا ہے۔ اور پھر آپ انعام دیتے ہیں یروشلم کو اسرائیل کا باضابطہ دار الحکومت تسلیم کر کے۔ مگر یہ کام چوں کہ ایک منظم ریاست منظم طریقے سے کر رہی ہے لہذا اسے دہشت گردی نہیں کہا جاتا۔ دہشت گرد صرف فلسطینی ہیں۔

ملائشیا دہشت گردی کی ہر شکل کا کٹر مخالف ہے جس کی زد میں بے گناہ لوگ آئیں۔ مگر وجوہ کا مداوا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ دہشت گردی فلسطینیوں سے جنگ آزمائی یا انھیں مسلسل خوف زدہ رکھنے سے نہیں بلکہ حقِ ریاست سمیت تمام جائز بنیادی حقوق تسلیم کرنے اور منصفانہ رویہ اپنانے ہی سے رکے گی۔

سابق لیگ آف نیشن ہو کہ اقوامِ متحدہ ان کا قیام قوموں کے درمیان جنگیں روکنے کے لیے عمل میں آیا۔ مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج کی جنگیں پچھلوں سے زیادہ ہلاکت خیز ہیں جن میں پورے پورے ملک تاراج ہو رہے ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر آپ ایک انسان کو قتل کریں تو آپ قاتل۔ لیکن جنگ کے نام پر لاکھوں انسانوں کو قتل کریں تو آپ ہیرو۔ایک انسان کو قتل کریں تو آپ کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ لاکھوں کو قتل کریں تو تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف سے لکھا جاتا ہے، سینے پر تمغوں کی قطاریں سجتی ہیں، آپ کے یادگاری مجسمے ایستادہ ہوتے ہیں۔ انفرادی قتل سنگین جرم ہے مگر جنگوں کے ذریعے قتل جائز اور قانونی۔ اس کا مطلب ہے کہ ہماری تہذیبی اقدار اور انفرادی و اجتماعی سوچ میں کوئی ایسی ٹیڑھ ہے جیسا سیدھا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

کیا ستم ظریفی ہے کہ ہم آج بھی یقین رکھتے ہیں کہ امن کا قیام جنگوں سے ہی ممکن ہے۔ قوموں کے جھگڑے جنگوں ہی سے نمٹ سکتے ہیں۔ لہذا ہمیں مزید جنگوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ چناں چہ ایک سے ایک ہلاکت خیز ہتھیار تیار اور استعمال ہو رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو ان نئے اور کمر توڑ مہنگے ہتھیاروں کی تجربہ گاہ اور منڈی بنا دیا گیا ہے۔

اسلحے کی تجارت سب سے منفعت بخش عالمی تجارت ہے۔ اسلحہ ساز اور تاجر ڈھٹائی کے ساتھ بربادی اور موت سے منافع کشید کرتے ہیں اور اس کے حق میں دلیلیں بھی دیتے ہیں۔ درحقیقت عالمی امن کی مالا سب سے زیادہ جپنے والے ممالک ہی اس شرم ناک کاروبار میں سب سے آگے ہیں۔ اس تجارت نے کئی ممالک کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔

آج ایک جدید فائٹر جیٹ سو ملین ڈالر کا آتا ہے۔ اس کی دیکھ بھال پر لاکھوں ڈالر خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ مگر غریب ممالک بھلے سکت ہو نہ ہو یہ اسلحہ خریدنے کے لیے طاقت ور دباؤ کا شکار ہیں۔ انھیں ڈرایا جاتا ہے کہ ان کے دشمنوں اور ہم سائیوں کے پاس یہ ہتھیار موجود ہیں لہذا انھیں بھی توازنِ طاقت برقرار رکھنے کے لیے یہ ہتھیار خریدنے ضروری ہیں۔ چناں چہ بھوک اور مصائب سے دوچار ممالک کے بجٹ کا بڑا حصہ ایسے مہنگے ہتھیاروں کی خریداری میں چلا جاتا ہے جو ممکن ہے کبھی استعمال کرنے کی نوبت بھی نہ آئے۔

جب میں برما کے روہنگیوں کو دیکھتا ہوں تو بہت دکھ ہوتا ہے۔ میں ذاتی طور پر کسی بھی ملک کے معاملات میں مداخلت کا مخالف ہوں۔ مگر قومی خود مختاری کا یہ مطلب تو نہیں کہ آپ اپنے ہی لوگوں یا کسی مخصوص گروہ کے قتلِ عام کے لیے بھی آزاد ہوں اور یہ بھی چاہیں کہ دنیا تماشائی بنی رہے۔

اگر اقتصادی سطح پر دیکھا جائے تو ہم آزاد تجارت کا بہت سنتے آ رہے ہیں مگر جو ہو رہا کیا واقعی فری ٹریڈ ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چھوٹے اور کم زور ممالک کی صنعتوں کو کوئی تحفظ نہ ہو۔ان کی سادہ سی مصنوعات کو بھی بہانے بہانے سے امیر منڈیوں میں داخلے سے روکا جائے اور خود ان ممالک کو طاقت ور امیر ممالک اپنی مہنگی مصنوعات سے فری ٹریڈ کے نام پر بھر دیں۔

ملائشیا کے پام آئل کی مثال لے لیں۔ شور مچایا جا رہا ہے کہ پام آئل صحت کے لیے مضر ہے۔ پام کے درختوں کی کاشت کے لیے جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے اور اس کٹائی سے چرند و پرند کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ خوردنی مصنوعات پر پام آئل فری لکھا جا رہا ہے۔ مہم چلائی جا رہی ہے کہ پام ڈیزل ماحولیات کے لیے ٹھیک نہیں۔ ماحولیات کے یہ ہم درد لوگ اور ممالک ان لاکھوں خاندانوں کا بھی تو سوچیں کہ جن کی گزر بسر ہی پام آئل کی پیداوار اور صنعت پر ہے۔ آج بھی اڑتالیس فی صد ملائشیا گھنے جنگلات پر مشتمل ہے۔ کیا شور مچانے والے ماحولیاتی ہم درد ممالک بتائیں گے کہ ان کے یہاں کتنے فی صد جنگلات باقی ہیں؟ ملائشیا ایسی پائیدار ترقی پر یقین رکھتا ہے جس میں انسان اور قدرتی وسائل کو ساتھ ساتھ لے کے چلا جائے۔ دو برس بعد ملائشین پام آئل کا ایک قطرہ بھی ایسا نہ ہو گا جو پائیدار ترقی کے اصول کے احاطے سے باہر پیدا ہوا ہو۔

ایک طرف آزاد تجارت کی بات ہو رہی ہے اور دوسری جانب اسی آزاد تجارت کے علم بردار بین الاقوامیت سے منہ موڑ کے تنگ نظر قوم پرستی کی گود میں پناہ لے رہے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سرحدی لکیروں کو غیر موثر کر دینے کے وکیل اپنی ہی سرحدیں بیرونی  مصنوعات اور آزادانہ انسانی نقل و حمل کے لیے بند کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی مفاد میں کیے گئے اجتماعی معاہدوں سے نکلا جا رہا ہے۔ افرادی و اجتماعی نقل و حمل دوبھر ہوتی جا رہی ہے، کیوں کہ ہر شخص کا ڈیٹا طاقت ور ممالک اور ان کی کارپوریشنوں کی پہنچ میں ہے۔ اگر یہی عالم گیریت ہے تو پھر اس سے خوف زدہ ہونا چاہیے۔

اقوامِ متحدہ ایسی دنیا میں امید کی وہ کرن ہے جسے جھلملاتے رہنا چاہیے۔ مگر اس تنظیم کے ڈھانچے کو بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جو ممالک جمہوریت کا واعظ دیتے نہیں تھکتے وہ اقوامِ متحدہ میں جمہوری تبدیلیوں کے کیوں مخالف ہیں؟ کیا پانچ ممالک صرف اس لیے ویٹو کی طاقت سے باقی دنیا کی قسمت کا فیصلہ کرتے رہیں گے کیوں کہ انھوں نے ستر برس پہلے کوئی جنگ جیت لی تھی؟

میں نے پہلے بھی تجویز کیا تھا کہ اگر ویٹو کا نظام برقرار ہی رکھنا ہے تو پھر سلامتی کونسل میں پانچ مستقل ارکان کے علاوہ دس غیر مستقل ارکان کو بھی یہ حق دیا جائے کہ وہ اپنی  مدتِ رکنیت کے دوران اپنے میں سے کم از کم دو ایسے ممالک چن لیں جن کے پاس ویٹو کی طاقت ہو اور اگلی مدت میں پھر دو نئے ارکان کو یہ حق دے دیا جائے۔ اور سلامتی کونسل جو بھی فیصلے کرے ان کی جنرل اسمبلی سے سادہ اکثریت سے توثیق کروائی جائے تا کہ اقوامِ متحدہ کے تمام ارکان کو احساس رہے کہ ان کی بھی کوئی مساوی حیثیت ہے۔ اس وقت میں ترانوے برس کا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ کچھ نہ کچھ پیش رفت ضرور دیکھ پاؤں گا۔ بہت شکریہ۔

(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).