سسر اور دیوروں نے مجھے گلی میں پھینک دیا، ہمشیرہ نے اپنی چادر سے میرا جسم ڈھانپا؛ چیف جسٹس اور وزیراعظم سے انصاف کی اپیل


”اس دن مجھے میرے سسر نے کمرے سے باہر بلایا، باہر آئی تو دیکھا اس کے بھائی اور بیٹے موجود تھے جنہوں نے۔۔۔“

 

دنیا بھر میں خواتین پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں اور ذہنی وجسمانی تشدد کیساتھ ساتھ جنسی طور پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے مگر اس کیساتھ ہی خاموش رہنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے قوانین کے باوجود بھی ان واقعات میں کمی نہیں آ رہی۔

خواتین نے بھی ظلم کیخلاف خاموش رہنے کی روایت کو بدلتے ہوئے خود پر ہونے والے مظالم کیخلاف آواز اٹھانا شروع کر دی ہے جس کی تازہ ترین مثال مہرین بی بی ہے جو 2 بچوں کی ماں ہے۔ مہرین بی بی نے اٹک پولیس کو دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ میری 7 سال قبل شادی ہوئی اور 2 بچے ہیں۔ 5 سال پہلے میرے والد کا انتقال ہو گیا اور مجھے وراثت میں 60 سے 70 لاکھ روپے کی جائیداد ملی جس کے بعد میرے شوہر اور سسرال والوں نے مجھ پر تشدد کرنا شروع کر دیا اور میری اجازت کے بغیر ہی 12 لاکھ روپے مالیت کی جائیداد فروخت بھی کر دی۔

جب تشدد حد سے بڑھ گیا تو میں میکے آ گئی لیکن میرے سسر حاجی فیض یاب مجھے واپس سسرال لے آئے جس پر میری بہن نے بھی میرے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا۔ گھر آنے کے بعد میرے سسر نے مجھے کمرے سے باہر آنے کو کہا جہاں اس کا بھائی ظفریاب، اس کا بیٹا محمد ظفر، میرے دیور عبدالرحمان اور احمد فیض اور میرے شوہر عبداللہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر جائیداد بیچنے کیلئے مجھ پر دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا۔

میں نے جب انکار کیا تو میرے سسر نے بالوں سے پکڑ کر مجھے ایک چارپائی پر پھینک دیا جس کے باعث میری بائیں آنکھ کی بینائی چلی گئی۔ میرے دیوروں نے مجھ پر مکوں اور لاتوں کی بارش کر دی،ظفریاب نے میرے چہرے پر مکا مارا جو میری تھوڑی پر لگا۔ میرے سسر، اس کے بھائی اور اس کے بیٹے نے میری قمیص پکڑ کر مجھے گھسیٹا جس کے باعث قمیص پھٹ گئی اور میں برہنہ ہو گئی اور پھر مجھے گھر سے باہر پھینک دیا گیا۔ میری بہن نے اپنی چادر کے ذریعے میرا برہنہ جسم ڈھانپا اور میرے بھائی مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔

مذکورہ خاتون نے فیس بک پر جاری ویڈیو پیغام میں اپنی روداد سناتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے ایف آئی آر تو درج کر لی ہے مگر کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں کیونکہ میرا سسر بدنام زمانہ کرپٹ صحافی ہے جس کا کام ہی دوسروں کو بلیک میل کرنا ہے اور پولیس بھی اس وجہ سے کارروائی نہیں کر رہی۔ مہرین بی بی نے وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعلیٰ پنجاب اور آئی جی پنجاب سے نوٹس لینے اور انصاف دلانے کی اپیل کی ہے۔

خاتون نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ”میرے پورے جسم پر نشان ہیں، میرے سسر فیض یاب، اس کے بھائی ظفریاب اور اس کے بیٹے محمد ظفر نے میری قمیص پھاڑ دی، میرے دیور عماد فیض اور عبدالرحمان فیض نے مجھے پکڑ کر گلی میں پھینک دیا، میری ہمشیرہ نے اپنی چادر سے میرا جسم ڈھانپا، وہ قمیص پولیس کو تفتیش کیلئے دی ہے لیکن پولیس والے مدد نہیں کر رہے کیونکہ میرا سسر زمانہ کرپٹ صحافی ہے اور اس کا کام ہی لوگوں کوبلیک میل کرنا ہے۔

وہ مجھے بلیک میل کرتا تھا کہ میں آپ کے بھائیوں کو منشیات کے الزام میں جیل میں بند کروا دوں گا اور اس وجہ سے وہ بھی میری مدد کرنے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اب میرے ساتھ ظلم کی انتہاءکر دی گئی ہے اور میں مزید برداشت نہیں کر سکتی، میری آئی جی پنجاب، چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب سے اپیل ہے کہ مجھے انصاف دلایا جائے، وزیراعظم پاکستان نے بار بار کہا تھا کہ ملک میں تبدیل آئے گی، میں ان کی بیٹی ہوں، وہ مجھے انصاف دلائیں۔ پولیس والوں نے ایف آئی آر تو درج کر لی ہے مگر میری سرپرستی نہیں کر رہی، میری اپیل ہے انہوں نے جو میرے پیسے اور زیور کھایا ہے، وہ مجھے واپس دلایا جائے۔

بشکریہ روزنامہ پاکستان؛ https://dailypakistan.com.pk/12-Oct-2018/863282


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).