پرویز ہود بھائی کا انٹرویو


س 10: پاکستان کی جوھری توانائی سے پاکستان کو کیا حاصل ہوا اور کیا کھویا؟
ج: ہمیں بجلی تو کوئی خاص ملی نہیں ہاں ہم نے چھ سات بم دھماکہ ضرور کیے اور خوش ہوئے۔ مگر دیکھا جائے تو آج پاکستان جس بحران میں ہے وہ ماضی سے بہت زیادہ شدید ہے۔ ایک طرف مہنگائی انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ تعلیم کا بحران ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اپنے عروج پر ہے۔ اس وقت پاکستان میں اقلیتوں کے لئے کوئی جگہ نہیں رہی۔ وہ خوفزدہ رہتے ہیں۔

س11: گذشتہ کئی سالوں میں خود کش دھماکوں میں واضح اضافہ ہوا ہے کیا اس کا تعلق حکومتی پالیسی کی کوئی کڑی ہے یا بدلتے سماج کا نتیجہ؟
جواب: بات بالکل واضح ہے کہ ملاؤں نے نوجوانوں کو بہکایا ہے۔ اور ان سے کہا ہے کہ جنت میں ان کو یہ ملے گا وہ ملے گا اور ان کو اس طرح کے جنگجو بنا دیا ہے کہ نہ صرف اپنے کو بلکہ آس پاس والوں کو بھی ختم کر رہے ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو مارے جا رہے ہیں ان میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے جو سجدوں میں نمازیں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت بڑی لعنت ہے پاکستان کے لیے۔ یہ نام نہاد مدرسوں کی تعلیم کا نتیجہ ہے۔ اور اس سے پورے معاشرہ کو شدید خدشہ لاحق ہے۔

س12: یہ صورتحال کب سے اور کیوں پیدا ہوئی؟
ج: حکومتِ پاکستان نے سعودی عرب کے ساتھ سوویت یونین کے خلاف جہاد کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں مذہبی کٹر پن اور مجاہدین تنظیمیں وجود میں آئیں۔ اس جنونی پن کو مدارس میں شامل کر دیا گیا۔ آج جو ہم دیکھ رہے ہیں وہ اس کا منطقی نتیجہ ہے۔ طالبان تو خود ہماری بنائی ہوئی سیاسی قوت ہے۔ اور 11ستمبر 2001 کے بعد اس کو اور شہ ملی۔ پاکستان نے پناہ دی۔ اور ان کے پروپیگنڈہ سے نہیں روکا جس کے نتیجے میں ان کا رسوخ بڑھتا گیا۔

سوات کی مثال لیں جو ایک بہت پرامن جگہ تھی۔ جہاں تمام مسلمان رہتے تھے۔ وہاں نہ تشدد پسندی تھی اور نہ ہی خودکش حملے ہوتے تھے۔ آج طالبان نے وہاں اپنا گڑھ بنا لیا ہے۔ وہ ایف ایم ریڈیو سے سالوں اپنی نشریات کرتے رہے۔ آج طالبان نے سوات کو اپنے گھیرے میں لے لیا ہے۔ یہاں لڑکیوں کے اسکول بند ہو گئے ہیں۔ ایک خوف طاری ہے، غیر ملکی تو کیا ملکی بھی جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ حکومت نے یہ سب کچھ ہوتے ہوئے دیکھا اور خاموش رہی میں تو اسی کو مجرم ٹھہراؤں گا۔

س13: بنیاد پرستی اور دہشت گردی میں کیا فرق ہے؟
ج: بنیاد پرستی ضروری نہیں دہشت گردی ہو۔ اگر” کٹر پنا‘‘ اور اپنے نظریات کو اپنی ذات تک رکھا جائے توایک فرد اپنی زندگی گزار سکتا ہے۔ جو شاید مجھے آپ کو پسند نہ آئے لیکن جب مذہبی ”کٹر پنا‘‘ اس طرح ہو جائے کہ سارے معاشرے کو اسی طرح ڈھالنا ہے۔ تو یہ خطرہ کا باعث بنتا ہے۔

س 14: ستمبر 11 کے بعد جو صورتحال سامنے آئی ہے۔ اس کے تحت پاکستانیوں میں امریکہ کے خلاف اشتعال اور ساتھ ہی طالبان کے ساتھ ہمدردیاں۔ اس سلسلے میں کیا پالیسی ہونی چاہیے۔
ج: امریکہ نے عراق پہ جو حملہ کیا اس پر دنیا نے مذمت کی۔ اور پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں نے بھی مظاہرےکیے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ حملہ ناجائز اور غیر قانونی تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ وجہ خود کش حملوں کی نہیں بن سکتی۔ اور نہ طالبان کی حمایت کرنے کی۔

اگر امریکہ آج ختم بھی ہو جائے تو طالبان اب اپنے مقصد سے ہٹنے والا نہیں ہے۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ کسی صورت پاکستان اور پھر پوری دنیا پہ اپنے نظریات مسلط کریں وہ اپنے نظریات کو اسلام کہتے ہیں۔ لیکن یہ ایک منازعہ مسئلہ ہے کیونکہ عالم دین کہتے ہیں کہ یہ اسلام نہیں کچھ اور ہے۔ اور یہ ظلم جو طالبان کر رہے ہیں۔ خصوصا عورتوں کے حوالے سے وہ جائز نہیں۔

س15: پاکستان میں سیاسی استحکام ممکن بھی ہے؟ ہر دفعہ حکومت بدلنے کے ساتھ آئین بھی بدل جاتا ہے؟
ج: میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ ممکن ہے۔ حالیہ انتخاب گو مشکل تھے مگر اس کا بہت اچھا اثر پڑا۔ اور یہ عمل جاری رکھنا چاہیے۔ اسی طرح بتدریج جمہوری نظام قائم ہو گا۔ جمہوریت کے بغیر مسائل کا حل ممکن نہیں گو ہم ان انتخابی نتائج سے پوری طرح متفق نہیں لیکن یہ فوجی ڈکٹیٹر شپ سے بہت بہتر ہے۔

آئین کو سیاست سے الگ رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ جب ہم میں سیاسی شعور آئے گا تو ہی پتہ چلے گا کہ آئین ایک مقدس چیز ہے۔ اور اس کو چھیڑنا بہت بڑا جرم ہے۔

گوھرتاج : پرویز صاحب آپ کا بہت شکریہ
پرویز ہود بھائی: آپ کا بھی شکریہ
۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3