پاکستان میں می ٹو کا طوفان آنے کو ہے


جب امریکا اور خاص طور پرہالی ووڈ میں ’می ٹو‘ تحریک چلی تھی تو اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہے، اب یہ سلسلہ بھارتی فلم انڈسٹری تک آن پہنچا ہے، گو کہ اس تحریک کو انڈیا پنہچنے میں ضرورت سے زیادہ دیر لگ گئی کیونکہ ایک تو عورتوں نے اب حالات کا مقابلہ کرنے کی ٹھان لی ہے، اور دوسری بات ہالی ووڈ میں کوئی فیشن ہو ٹرینڈ یا روایت، اس کو بھارت پہنچنے میں محض چند گھنٹے ہی لگتے ہیں۔

اب جب بھارت میں اداکارہ تنوشری نے نانا پاٹیکر کو مورد الزام ٹھہرایا تو الوک ناتھ بھی دام میں آگئے، اب سبھاش گھئی، وکاس بہل اور رتھک روشن بھی ایسے ہی الزامات کی زد میں ہیں۔
گو کہ بھارتی اداکاروں میں اس حوالے سے مختلف آرا پائی جاتی ہے، کچھ ان الزامات کو جائز اور کچھ نامناسب سمجھتے ہیں۔ منہ پھٹ سمجھی جانے والی اداکارہ راکھی ساونت نے تو کھل کر کہا ہے کہ یہاں کچھ بھی زبردستی نہیں ہوتا، جو کچھ بھی ہوتا ہے باہمی رضامندی سے ہوتا ہے، اب دیکھئے کیا نتیجہ نکلتا ہے ان الزامات کا۔

مجھے تو انتظار ہے اس دن کا جب یہ سلسلہ سرحد پار کرکے مملکت خداداد پاکستان کی تباہ حال لالی ووڈ کا یا پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کا رخ کرلے، راحت اندوری کے بقول
لگے کی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

تو اب سوچیں کہ جب یہ ’می ٹو‘ تحریک جس دن پاکستان پہنچی تو کیا ہوگا؟ میرے تو ابھی سے سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو رہے ہیں، کیونکہ امریکا یا بھارت میں معاملہ کورٹ کچہری تک جا رہا ہے لیکن یہاں ایسا ہوگا اور وہیں تھم جائے گا، کم از کم مجھے ایسا نہیں لگتا۔

میرے ذہن کے اس مخمصے کی بنیادی وجہ ایک تو یہ ہے کہ بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ فلموں اور ڈراموں میں آنے والے لوگ اچھے نہیں ہوتے، پھر میڈیا کے حوالے سے بھی عام طور پر ایسی ہی سوچ پائی جاتی ہے۔ اب اچھے برے کی لائین کہاں کھینچی گئی اور کس نے کھینچی یہ تو میری سمجھ میں آج تک نہیں آیا لیکن اتنا پتہ ہے کہ عام رائے یہی ہے۔

چلئے فرٰض کرتے ہیں کہ ماضی کی کسی اداکارہ نے اپنے دور کی کسی مشہور اداکار پر اس قسم کا الزام لگادیا تو سب سے پہلے میڈیا کے پورے بلیٹنز اسی موضوع پر ہوں گے، ان اداکاروں کی اس دورکی فلمیں نکل آئیں گی، اس دور کے اداکاروں، اداکاراؤں اور صحافیوں کے بیپرز ہوںا اور ان کے جملوں کے ٹکرز چلنا بھی خارج از امکان نہیں، کسی پرانے اداکار یا تجزیہ نگار نے اگرکسی سین یا ڈائیلاگ کے کمزور پہلو کی نشاندہی کردی تو اب ہیڈ لائنز میں وہی سین یا ڈائیلاگ چلنا شروع ہوجائے گا۔

اب تصور کریں یہ معاملہ میڈیا تک آن پہنچا اور کسی اینکر نے اپنے باس یا سینیئر ملازم پر کوئی الزام دھر دیا تو کتنی دھماچوکڑی مچے گی۔ ویسے اس قسم کچھ مسائل پی ٹی وی کی حد تک سامنے آئے مگر دب گئے، لیکن اب تو میڈیا گروپس کی بھی گروپ بندی ہے، سوچیں کہ ایک فریق دوسرے کونیچا دکھانے کے لئے کس حد تک جاسکتا ہے؟ لیکن اگر الزام کسی ساتھی اینکر پر لگا تو خبر میں مرچ مصالحہ بھرنا بھی نسبتاّ آسان ہوجائے گا۔

خطرناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس قسم کے الزام کی زد میں آئے ہوئے شخص کو صفائی کا موقع دیے بغیر پہلے دن ہی مجرم تصور کرلیا جائے گا، عدالت تو فیصلہ جو بھی دے مگر ملزم کا پہلے ہی جینا دوبھر ہوجائے گا۔ یہ خدشہ اس لیے ہے کہ عام طور پر سوشل میڈیا کی کسی وڈیو پر بھی ایسا ہی طرزِ عمل نظر آتا ہے۔ ایسے میں الزام لگانے والی خاتون کے کئی مداح بھی میدان عمل میں آسکتے ہیں، کیونکہ غیرت عشق بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے۔

ساتھ ہی حکومتِ وقت بھی کسی انجانے خوف کی کیوجہ سے ملزم کی گرفتاری کے احکامات جاری کرسکتی ہے، کیونکہ ہمارے ہم وطنوں میں جذبہء ایمانی اپنی آخری حدود کو چھو رہا ہے۔ فرض کریں ایسا نہ ہو اور ملزم خوش قسمت یا طاقتور ہونے کی وجہ سے ان سارے مراحل سے بچ نکلے، مگر ایک خطرہ ابھی باقی ہے، وہ ہے کبیرہ گناہ کا مرتکب قرار دیے جانے کی صورت میں سزا کی فتویٰ۔ اگر اس الزام کے وقت ملزم کنوارہ تھا تو 100 درے لگانے کی، اگر شادی شدہ تھا تو پھر سنگساری کی۔

ان سارے خطرات کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ یہ سلسلہ کسی بھی وقت ہماری میڈیا پر چھانے کو تیار ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اس تحریک کا دائرہ مشاعروں اورادبی دنیا تک بھی پہنچ جائے۔ ویسے اگر کسی نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے اور ایسے کرداروں کو اپنے کیے کی سزا ملتی ہے تو اس میں کوئی برائی بھی نہیں، مگر یہ بھی سوچیئے کہ ایسے الزامات کسی مرد نے کسی مشہور خاتون پر لگادیئے تو کیا ہوگا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).