کاش می ٹو مہم کے ذریعے تمام متاثرہ خواتین کو انصاف مل سکے


خواتین اور بچیوں کو ہراساں کرنا، انہیں ڈرانا اور بلیک میل کرنے کی ایک بیمار شدہ روایت تب سے چلی آرہی، جب سے مردوں نے اپنے آپ کو طاقتور سمجھ کے جسمانی بل بوتے پہ، یہ مان لیا ہے کہ ہم ہر طرح سے ایک عورت سے زیادہ ذہین، طاقتور اور باہمت ہیں، اور ہر شعبہ زندگی میں اسے پیچھے چھوڑ سکتے ہیں۔ تب ہی سے انہوں نے مختلف طریقوں سے خواتین پہ زور آزمائی شروع کردی ہے۔ عالم اسلام کے پیروکار تو شاید یہ بھول چکے ہیں کہ، بی بی حوا کو خداوند نے حضرت آدم کے پاوں سے نہیں، بلکہ کمر سے اوپر کا گوشت نکال کہ تخلیق کیا تھا۔ جس کا صاف اور سادہ مطلب یہ تھا کہ مرد اور عورت برابر ہیں، اور ایک جیسی اہمیت کے حامل ہیں۔

پر جب مرد حضرات نے خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں بڑھتے دیکھا، ان کی قابلیت کو خود سے زیادہ سمجھا، تو شاید کچھ چھوٹے ذہن والے مرد حضرات بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے، اور یوں انہوں نے طرح طرح کی سازشیں کر کے خواتین کو پیچھے چھوڑنا چاہا۔ اب بھی کافی مردوں کا یہ رویہ ہوتا ہے کہ عورتیں صرف گھر کا ہانڈی چولہا سنبھالیں اور گھر کی چار دیواری تک محدود رہیں، جیسے یہ چار دیواری نہ ہوئی کوئی جیل ہوئی۔ اب مردوں نے عورت ک ذہنی طور پہ کمزور ثابت کرنے کے لیے اور معاشرے میں ناکام بنانے کے لیے ایک نئی روش اپنائی ہے۔ وہ اسکول، کالج، یونیورسٹی، ملازمت کی جگہ، فیلڈ ورک میں عورتوں کو ہراساں کر کے انہیں ذہنی دباؤ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

جنسی طور پہ اسے ہراساں کر کے، نامناسب حرکتیں کر کے، خواتین کو اس طرح بلیک میل کرتے ہیں، کہ وہ اس کے ناجائز مطالبات کو پورا کرے۔ دیگر صورت وہ وارننگ دیتے ہیں کہ ہم اسے اس معاشرے میں بدنام کریں گے جو پہلے سے ہی مردوں کو فوقیت دیتا ہے۔ وہ دھمکاتے ہیں کہ تمہارا ریپ کر دیں گے، تمہاری ویڈیوز اور تصاویر سوشل میڈیا پہ ڈال دیں گے، تمہارے خلاف سوشل میڈیا پہ مہم چلائیں گے، تمہارا موبائل نمبر دوسرے لڑکوں تک پہچائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ روشن مستقبل کو جب اندھیروں کا سایہ گھیرنے کا اشارہ دیتا ہے، تو ایک عورت بیچاری جائے بھی تو کہاں جائے؟

اس کے نازک سے کندھوں پر باپ بھائیوں کی عزت کا بوجھ، اس کے سر پہ معاشرے کے ریتی رواج، اس کو اپنے مستقبل کی فکر، ان سب میں دب کر وہ مایوس ہوجاتی ہے۔ کچھ لڑکیاں ہراسمینٹ کی وجہ سے خودکشی کرلیتی ہیں، کچھ ملازمت چھوڑ کے گھر بیٹھ جاتی ہیں، اور کچھ پڑھائی درمیان میں چھوڑ کر اپنا آنے والا کل داوٴ پہ لگاتی ہیں۔ ان مسائل سے دوچار لڑکیوں کے حالات کوئی سمجھ بھی نہیں پاتا۔ باپ بھائی کو تو وہ بتا نہیں سکتی، ماں کو بتائے تو وہ ڈر کے مارے اور پریشان ہوجاتی ہے، بہن کو بتائے تو وہ خود اپنے خوف میں مبتلا ہوجاتے ہے۔ ایک لڑکی کہ لیے بڑی ہی ہمت والی بات ہوتی ہے جب وہ اس قسم کے واقعات کو میڈیا میں شئیر کر کے انصاف طلب کرتی ہے۔

کچھ وقت سے می ٹو مہم کا آغاز دنیا بھر میں ہوئا ہے، جس کا مطلب ہے آج یا کل، یا بھلے دس بیس سال پہلے آپ کے ساتھ جنسی زیادتی ہوئے ہے، یا آپ کو کسے نے ہراساں کیا ہے، تو آپ شرمائیں نہیں، بلکہ اپنا سچ بتائیں اور انصاف طلب کریں، اور اس فرد کی اصلیت کو دنیا کے سامنے بے نقاب کریں، جس نے آپ کی عزت کے ساتھ کھلواڑ کرنا چاہا۔ ویسے بھی آج کل سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، جیسے ہی کوئی پوسٹ سامنے آئی، منٹوں میں پھیل جاتی ہے، اگر پوسٹ کسی فلمی سیلیبرٹی، کسی سیاسی، سماجی شخصیت کی ہو تو اس کو ویسے بھی ہر کوئی اہمیت دیتا ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی اسے خبر کی طور پہ چلاتا ہے۔

می ٹو ( میں بھی ہراسمینٹ کا شکار ہوئی ) مہم کا فائدہ لیتے ہوئے جہاں دنیا بھر کی ستائی ہوئی لڑکیوں نے اپنے ساتھ ہوئی جنسی زیادتی، ہراسمینٹ کے واقعات کو دنیا کے سامنے لایا ہے، وہاں بالی ووڈ میں آج کل یہی موضوع چل رہا ہے۔ کسے پتا کہ کامیاب فلموں اور میوزک سے دنیا بھر کو تفریح دینے والے بالی ووڈ میں کام کرتے لوگ بھی ایسے ہوں گے؟ مشہور اداکارائیں کہتے ہیں ہے کہ انہیں بھی ہراساں کیا گیا تھا۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ جب ایک آزاد عورت جو کہ فلم بناتی ہے، سارا دن مردوں کے ساتھ کام کرتی ہے، اس کو بھی ہراساں کرنے اور تنگ کرنے سے مرد باز نہیں آتے۔ ذرا سوچو جو ایک گھریلو خاتون ذریعہ معاش ڈھونڈنے کے لیے یا تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلتی ہوگی، اس کو کس قدر ہراسمینٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا؟ اس مہم میں بالی ووڈ اداکارہ تنوشری دتا اور کنگنا راناوت نے انکشافات کیے ہیں کے انہیں بھی ہراساں کیا گیا تھا۔ تنوشری کہتے ہے کہ اسے اداکار نانا پاٹیکر، جب کہ کنگنا کا کہنا ہے کہ اسے کوئین فلم کے شوٹنگ کے دوران اس فلم کے ڈائریکٹر وکاس بھل نے ہراساں کیا تھا۔ انہوں نے الزامات لگائے کہ، ان کے علاوہ دیگر خواتین کو بھی ہراساں کیا، اور وہ کہتا تھا کہ جیسا میں کہوں ویسا ہی کرو۔

بھارت کی نوجوان صحافی نتاشا ہمرجانی نے گلوکار کیلاش کیر پہ الزام عائد کیا ہے، کہ اس نے سال سنہء 2006 کو میرے مرضی کے خلاف مجھے چھونے کی کوشش کی اور ہراساں کیا۔ ساتھ ہی سینیئر اور شرافت کی خوبیوں سے مشہور اداکار الوکھ ناتھ بھی اس الزام سے بچ نہیں سکے۔ مشہور اداکارہ ونتا نندا نے الزام عائد کیا ہے، کہ بیس سال پہلے ایک ٹی وی پروگرام کے دوران الوک نات نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔

گلوکار ابھیجیت کے خلاف بھی ایِسے خبریں آر ہی ہیں۔ پروڈیوسر اور ہدایت کار ساجد خان بھی ان الزاموں کے زد میں آ چکے ہیں۔ بھارتی فلم انڈسٹری اس می ٹو مہم کی وجہ سے کچھ بٹ سی گئی ہے، کچھ اداکار ہراسمینٹ کا شکار عورتوں کی حمایت کر رہے ہیں اور کچھ تو بلکل ہی خاموش ہیں۔ پر یہ بات صاف ظاہر ہے کے کروڑوں اربوں میں کاروبار کرنے والی یہ فلم انڈسٹری بھی اس نیچ کام میں سب سے آگے آگے ہے۔ مسٹر پرفیکٹ عامر خان اور ریتک روشن کہتے ہیں، ہم ان لوگوں کے ساتھ کام ہرگز نہیں کریں گے، جو اس گھناونے کام میں ملوث ہیں۔ ویسے بھی بالی ووڈ کے لیے یہ بات پہلے سے ہی ہر کان میں ہے کہ یہ انڈسٹری اندر سے خواتین کا بہت ناجائز استمعال کرتی ہے۔ ان کو فلم سائن کرنے سے لے کر شوٹنگ مکمل ہونے تک اپنا جنسی استحصال سہنا پڑتا ہے۔

حال ہی میں پاکستانی گلوکارہ میشا شفیع نے پاکستانی گلوکار علی ظفر کے خلاف ہراساں کرنے کے الزامات لگائے، جس کی وجہ سے دونوں طرف سے سرد جنگ چھڑ گئی۔ علی ظفر کی تو والدہ بھی اپنے سپوت بیٹے کا دفاع کرنے کے لیے میدان میں آگئی، بھرحال یہ معاملہ ابھی بھی حل نہیں ہو سکا کہ الزامات حقیقت پہ مبنی تھے، یا ذاتی رنجشوں کا انتقام تھا۔ شہید بینظیر بھٹو یونیورسٹی کی نوجوان طالبہ فرزانہ جمالی کی بھوک ہڑتالیں اور احتجاج بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، جو اس کا یونیورسٹی کے وائیس چانسلر ارشد سلیم اور انگریزی کے لیکچرار عامر کٹک کے خلاف تھا، جو اسے ہراساں کر رہے تھے۔ ابھی دونوں حضرات اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں، شاید اسی لیے بھی کہ فرزانہ کی جراتمندانہ تحریک نے سوشل میڈیا اور میڈیا کا دھیان اپنے طرف کر لیا تھا۔ پتا نہیں یہ معاملہ ٹھنڈا ہونے کے بعد دونوں پھر سے اپنے عہدے پہ فائز ہوگے یا نہیں پر فی الوقت فرزانہ کامیاب ہوئی ہے۔

دو دن قبل ٹی وی ہوسٹ اور نیوز اینکر رابعہ انعم نے بنا نام بتانے، ایک ٹوئیٹ میں اشارہ کیا ہے کہ ایک کامیڈین بہت سی لڑکیوں کو ہراساں کرنے میں ملوث ہے۔ اب تو ایدھی فاؤنڈیشن کے موجودہ سربراہ اور عبدالستار ایدھی کے بیٹے فیصل ایدھی، اور سوشل میڈیا پہ اچھی خاصی شہرت حاصل کرنے والا کامیڈین جنید اکرم کا نام بھی اس فہرست میں آگیا ہے۔ یہ انتہائی سنگین بات ہے کہ کیوں آخر پڑھا لکھا طبقہ بھی اتنا تنگ نظر اور جاہل ہوگیا ہے، کہ وہ ملازمت پیشہ خواتین اور طالبات کو ہراساں کر کے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کر رہے ہیں۔ اس سب کو روکنے کے لیے قوانین تو بنے پر صرف کاغذوں تک محدود رہے، اور ان پہ عمل درآمد نہیں ہو سکا ہے۔

نفسیاتی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مریض عورتوں کی ایک بڑی تعداد آتی ہے، جس سے صاف ظاہر ہے مردوں کی نسبت خواتین زیادو ذہنی دباؤ کاشکار ہیں۔ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻧﮯ ﻣﻼﺯﻣﯿﻦ ﭘﯿﺸﮧ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﮐﻮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﻃﺮﯾﻘﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﺮﺍﺳﺎﮞ ﮐﯿﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺍﯾﮏ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﭘﺎﺱ کیا ہے، ﺟﻮ ﮨﺮﺍﺳﻤﻨﭧ ﺍﯾﮑﭧ 2010 ﮐﮩﻼﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻧﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﮕﮩﻮﮞ، ﺑﺸﻤﻮﻝ ﭘﻮﻟﯿﺲ اﺳﭩﯿﺸﻦ، ﺣﻮﺍﻻﺕ، ﺟﯿﻠﻮﮞ اسکوﻟﻮﮞ، ﯾﻮﻧﯿﻮﺭﺳﭩﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﭘﺒﻠﮏ ﻣﻘﺎﻣﺎﺕ ﮐﻮ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﯿﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺑﻨﺎﯾﺎﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﻧﺎ ﺗﻤﺎﻡ ﺍﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﮯ ﻻﺯﻣﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ہے۔

می ٹو مہم کی وجہ سے بہت سی خواتین نے آواز اٹھائی ہے، پر اگر ان کو اب بھی انصاف نہیں مل پایا، تو صاف ظاہر ہے ان کے اندر مایوسی پیدا ہوگی۔ پاکستان سمیت انڈیا اور دیگر ممالک میں جہاں عورتوں کے تحفظ کے قوانین بنے پڑے ان پہ مکمل عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ جنسی زیادتی کرنا بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ ایک شوہر تک کو اپنی بیوی کو بغیر اس کی رضامندی کے زبردستی چھونے کی اجازت نہیں ہے، تو یہ جاہلانہ اقدامات کر کے ظلم اور نا انصافی کے ساتھ کسی کے عزت کے ساتھ کھیلنا یا اسے مجبور کر کے اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنا کسی بھی طریقے سے کوئی انسانی عمل نہیں ہے۔ گزارش ہے کہ انسان ہیں تو انسان بنیں، درندے نہ بنیں۔ ہم دعاگو ہیں کہ می ٹو مہم کے ذریعے عورتوں کو انصاف ملے، جو انصاف کی امید پہ اپنے ساتھ ہوئی ہراسمینٹ کو دنیا کے سامنے لائی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).