انچولی میں کرکٹ، فٹ بال اور علامہ ضمیر اختر نقوی


انچولی کے بالکل درمیان میں ایک میدان ہے جس پر گھاس لگاکر شادی لان بنالیا گیا تھا۔ ہریالیز کے نام سے اس لان پر برسوں تقریبات ہوتی رہیں۔ اب رینجرز نے وہ سلسلہ بند کروادیا ہے۔ پہلے اس میدان کا نام سادات کرکٹ گراؤنڈ تھا لیکن کچھ لوگ چوکور ہونے کی وجہ سے اسے کیرم بورڈ بھی کہتے تھے۔ ہم یہاں ٹینس بال کرکٹ کھیلتے تھے۔ اس میدان پر کئی ایسے ٹورنامنٹ بھی ہوئے جن میں پورے کراچی کی ٹیموں نے شرکت کی اور ٹیسٹ کرکٹرز مہمان خصوصی بنے۔

انچولی کی دو مشہور ٹیمیں ان ٹورنامنٹس میں حصہ لیتی تھیں۔ السید اور سادات۔ السید میں فرسٹ کلاس کرکٹر اقبال امام، ان کے چچا ذوالفقار امام، فنگر بولر زاہد رضا اور داور بھائی ہوتے تھے جو ٹینس بال کو سوئنگ کرواتے تھے۔ سادات میں تراب حسین، ان کا بھائی کامران حسین، فرسٹ کلاس کرکٹر علی رضا اور اس کے بڑے بھائی اسد نقوی شامل ہوتے تھے۔ مجھے ایک بڑا میچ یاد ہے جب سادات کو چند گیندوں پر بیس بائیس رنز درکار تھے اور اسد نقوی نے تین مسلسل چھکے لگاکر میچ جیت لیا تھا۔

اسد نقوی اب جرمنی میں رہتے ہیں۔ وہ انچولی کے سابق کونسلر شکیل نقوی کے بھائی ہیں۔ شکیل بھائی غالباً ہمارے منظر بھائی کے کلاس فیلو تھے۔
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا۔

منظر بھائی کا گھر اس میدان کے بالکل ساتھ کارنر والا ہے۔ میدان کی چار دیواری کے اندر کسی زمانے میں ایک درخت ہوتا تھا۔ مشہور تھا کہ اس پر جنات رہتے ہیں۔ دن کے وقت بھی کوئی اس درخت کے قریب نہیں جاتا تھا۔ ہم کرکٹ کھیلتے تو کوشش کرتے کہ اس طرف فیلڈنگ کے لیے نہ جانا پڑے۔

منظر بھائی بتاتے ہیں کہ ایک رات ڈھائی بجے کسی نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ باہر نکلے تو دیکھا کہ تین چار لمبے تڑنگے لوگ کھڑے ہیں۔ ان کے چہرے اندھیرے میں خوفناک لگ رہے تھے۔ وہ باری باری منظر بھائی سے گلے ملے اور بتایا کہ ہم آپ کے پڑوسی ہیں۔ اب محلہ چھوڑ کر جارہے ہیں اس لیے الوداع کہنے آئے ہیں۔ منظر بھائی کو اگلی صبح پتا چلا کہ گزشتہ روز کسی نے وہ درخت کاٹ دیا تھا۔
لوگ کہتے ہیں کہ جنات منظر بھائی کو انچولی میں اپنا نمائندہ بناکر گئے ہیں۔

منظر بھائی صرف کرکٹ نہیں کھیلتے تھے۔ انھیں فٹبال کا بھی شوق تھا۔ 1994 کا ورلڈکپ مجھے یاد ہے جب سادات گراؤنڈ پر کرکٹ کھیلنے والے گیند بلا چھوڑ کر امروہا فٹبال گراؤنڈ چلے آئے تھے۔ ایک ماہ تک ہم دو ٹیمیں بناکر روزانہ ورلڈکپ فائنل کھیلتے رہے۔ ایک ٹیم ارجن ٹینا کی اور دوسری برازیل کی۔ میں اور منظر بھائی برازیل کی ٹیم میں تھے۔ میں بہت تیز دوڑتا تھا اور میرا بایاں پاؤں چلتا تھا۔ منظر بھائی نے میرا نام ببیٹو رکھ دیا جو برازیل کا اسٹرائیکر تھا۔ میں نے ان سے پوچھا، آپ مجھے روماریو کیوں نہیں کہتے؟ منظر بھائی نے مجھے ملامتی نظر سے دیکھتے ہوئے کہا کہ روماریو تو میں ہوں۔

منظر بھائی کے فٹبال کھیلنے کا انداز سکھوں والا تھا۔ یعنی گیند ہے یا نہیں، سامنے والے سے بھڑ جاؤ۔ چشمہ اتار کر کھیلتے ہوئے انھیں کچھ ٹپائی نہیں دیتا تھا۔ کبھی وہ اپنی ہی ٹیم کے کھلاڑی سے گیند چھین لیتے۔ کبھی میدان سے گزرنے والے راہگیر سے ٹانگیں پھنسا لیتے۔ ایک بار انھوں نے فٹبال سمجھ کر کنکریٹ کے بلاک کو کِک مار دی۔ اسی کے ساتھ ان کا فٹبال کرئیر اختتام کو پہنچ گیا۔
منظر بھائی لنگڑاتے ہوئے میدان سے باہر جا بیٹھے۔ میچ ختم ہوا تو سب نے باہر آکر ان سے اظہار ہمدردی کیا۔ شبو کو مذاق سوجھا۔ اس نے اعلان کیا کہ منظر بھائی کا پاؤں بھاری ہوگیا ہے اور نو ماہ بعد خوشخبری ملے گی۔ میں نے تصحیح کی کہ چونکہ منظر بھائی کا صرف ایک پاؤں بھاری ہوا ہے اس لیے خوشخبری ملنے میں اٹھارہ ماہ لگیں گے۔

امروہا فٹبال گراؤنڈ امروہا فٹبال کلب کا ہوم گراؤنڈ تھا۔ یہاں بھی نوے کے عشرے تک ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ امروہا کے کپتان عارف رضا انٹرنیشنل کرکٹر تھے اور انھیں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل تھا۔ امروہا کی ٹیم کے رکن شہزاد احمد کراچی کے کپتان رہے۔ کئی اور کھلاڑی مختلف اداروں کی ٹیموں میں شامل تھے۔

اس میدان کے بالکل ساتھ امروہے والوں کا امام باڑہ چہاردہ معصومین ہے۔ مجھے یاد ہے کہ علامہ ضمیر اختر نقوی کبھی مغرب سے پہلے یہاں مجلس پڑھتے تو فٹبالرز کو منبر پر بیٹھے بیٹھے خوب کوستے تھے کہ وہ کھیلتے رہتے ہیں اور شور مچاتے ہیں، مجلس میں نہیں آتے۔

کئی سال پہلے ہمارے محبوب بھائی عارف رضا کا انتقال ہوگیا اور ان کے ساتھ انچولی میں فٹبال کا خاتمہ ہوگیا۔ امروہا فٹبال گراؤنڈ میں اب فٹبال نہیں کھیلی جاتی۔ عشرہ محرم کی مجلس ہوتی ہے تو علامہ ضمیر اختر نقوی کو سننے کے لیے پورا میدان بھرا ہوا ہوتا ہے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi