نریندر مودی کی ناکام تقریر


\"edit\"بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے آزادی اور جمہوریت کو امریکہ اور بھارت کی دو مشترکہ اقدار قرار دیتے ہوئے امریکی کانگریس پر واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ مضبوط ، خوشحال اور ترقی پذیر بھارت ہی چین کے مقابلے میں اس کے مفادات کا تحفظ کر سکتا ہے۔ انہوں نے دہشتگردی کو مسترد کرتے ہوئے اس کے خلاف ہر سطح پر مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اب دہشتگردوں کی سرپرستی کرنے والوں کو تنہا کرنے کی ضرورت ہے۔ تھوڑی دیر پہلے بھارتی وزیراعظم جب امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تو تمام اراکین نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔ تقریر کے دوران بھی ایک موقع پر حاضرین نے کھڑے ہو کر اور تالیاں بجا کر نریندر مودی کو داد دی۔ دو سال پہلے تک امریکہ میں داخلے سے محروم بھارتی وزیراعظم اب امریکی صدر باراک اوباما اور کانگریس کو ہر دلعزیز ہیں۔ ان کی باتوں کو غور سے سنا جاتا ہے اور یہ دونوں ملک باہمی مفاد کی دوڑ میں خطے میں پاکستان کے احساس عدم تحفظ ، افغانستان کی جنگ اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے قطع نظر ایک دوسرے کے ساتھ مراسم استوار کرنے کی دوڑ میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔

واشنگٹن میں کچھ امریکی نمائندے بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال ، شخصی آزادیوں کی خلاف ورزی اور انتہا پسندی کے فروغ پر ضرور بات کرتے ہیں لیکن نریندر مودی کے دو روزہ دورہ کے دوران ان باتوں کا ذکر سامنے نہیں آیا۔ اس کے برعکس یوں محسوس ہوا جیسے صدر باراک اوباما اور امریکی کانگریس ایک دوسرے سے بڑھ کر بھارت کی طرف سے دوستی اور تعاون کا بڑھا ہوا ہاتھ تھام لینے کیلئے بے چین ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی تقریر میں بھارت کی سہانی تصویر دکھانے کی بھرپور کوشش کی اور واضح کیا کہ امریکہ میں مساوات کی جدوجہد کرنے والے مارٹن لوتھر کنگ نے عدم تشدد کا فلسفہ دراصل بھارت کے مہاتما گاندھی سے سیکھا تھا۔ اگرچہ وہ یہ بتانا بھول گئے کہ بھارت کے انتہا پسندوں نے بھی مہاتما گاندھی کو سب کے لئے مساوی حقوق کی بات کرنے پر وہی سزا دی تھی جو افریقین امریکیوں کے لئے مساوی حقوق کی بات کرنے پر مارٹن لوتھر کنگ کو دی گئی تھی۔ بھارتی وزیراعظم نے جمہوریت اور آزادی کی سربلندی کے لئے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے امریکی قانون دانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ دنیا کے مسائل حل کرنے کے لئے ان دو ملکوں کا تعاون بے حد ضروری ہے۔ امریکہ دنیا کی سپر پاور ہے جبکہ بھارت ایشیا میں واقع ہے جہاں وہ ایک طرف چین کی غیر جمہوری حکومت کا مقابلہ کر سکتا ہے تو دوسری طرف پاکستان میں پروان چڑھنے والی دہشت گردی کے خلاف امریکہ کا ہتھیار بن سکتا ہے۔ اس تقریر میں نریندر مودی 2008 میں ممبئی پر دہشتگرد حملہ کا ذکر کرنا بھی نہیں بھولے اور کہا کہ اس موقع پر امریکہ نے جس طرح بھارت کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا، بھارتی عوام اسے کبھی نہیں بھلا سکیں گے۔ پاکستان کا نام لئے بغیر انہوں نے امریکی کانگریس پر واضح کیا کہ دہشتگردی کے حوالے سے اصل مسئلہ کی جڑ اسی ملک میں ہے۔

بھارت نے حال ہی میں بحرہ ہند میں اپنی آبدوزوں پر اینٹی بلاسٹک میزائل سسٹم نصب کئے ہیں اور ان میزائلوں کا تجربہ بھی کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس تجربہ کو پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ اور بحر ہند کو جوہری ہتھیاروں کا گڑھ بنانے کی کوشش قرار دیا گیا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور سرتاج عزیز نے واضح کیا ہے کہ اس بارے میں اقوام متحدہ کی توجہ بھی مبذول کروائی جائے گی۔ تاہم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں بحر ہند میں بھارت کی بڑھتی ہوئی عسکری قوت کو چین کے خلاف امریکہ اور بھارت کے مشترکہ مفادات کے تحفظ کی ضمانت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے خوشحال اور طاقتور ہرنے سے امریکہ کے اسٹریٹجک STRATEGIC مفادات کا تحفظ ممکن ہے۔ اسی لئے بھارت نے بحر ہند کو محفوظ بنانے کے لئے موثر اقدامات کئے ہیں۔ کیونکہ بحر ہند میں چین کی بڑھتی ہوئی قوت اندیشوں کا سبب بن رہی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ بھارت اور امریکہ مل کر سمندری راستوں کی حفاظت اور مواصلت کی آزادی کی ضمانت ہیں۔ ان دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات اور تعاون سے ایشیا ، افریقہ ، بحر ہند اور بحر الکاہل میں امن اور استحکام کی ضمانت فراہم ہو گی۔ بھارتی بحریہ کی قوت میں اضافہ اور پاکستان کے ساتھ اس کے معاندانہ تعلقات کے تناظر میں نریندر مودی نے چالاکی سے ان تیاریوں کو چین سے لاحق خطرے کی طرف موڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بیان دراصل گزشتہ چند ہفتوں سے اسلام آباد کی طرف سے بحر ہند میں بڑھتی ہوئی بھارتی قوت کے بارے میں تشویش کے اظہار کا باالواسطہ جواب تھا۔

بھارتی وزیراعظم کی اس تقریر کا سرسری جائزہ بھی یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ وہ امریکیوں کو یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ بھارت ہی اس خطے میں امریکہ کی مشکلوں کا حل اور چینی خطرے کا جواب ہے۔ اس لئے اس کی بے پناہ فوجی تیاریوں کو پاکستان کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا۔ نریندر مودی نے افغانستان میں بھارت کے مثبت کردار کا ذکر کرتے ہوئے، اسے بھی مشترکہ امریکی و بھارتی اقدار اور مفادات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ دسمبر میں افغان پارلیمنٹ کا افتتاح کیا گیا تھا جو بھارت کی جمہوریت دوستی کی وجہ سے افغان عوام کو تحفہ تھا۔ ابھی حال ہی میں انہوں نے ہرات میں بھارت کے تعاون سے تعمیر ہونے والے ڈیم کا حوالہ بھی دیا۔ اس طرح اس پوری تصویر میں پاکستان کو غیر ضروری ملک قرار دیتے ہوئے بالواسطہ طور پر اسے دہشتگردی کا گڑھ قرار دیا اور اس کے خلاف مل جل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

بھارت کو تیزی سے ترقی پذیر معاشرے کے طور پر پش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں بھارت میں وسیع سماجی اور اقتصادی تبدیلی لانے کے لئے کام کر رہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ بھارت کے 80 کروڑ نوجوانوں کو معاشی لحاظ سے خودمختار کر دوں۔ انہوں نے بھارت کے لئے اپنے خواب کی تفصیل بتاتے ہوئے کانگریس کے ارکان سے زبردست داد وصول کی۔ نریندر مودی نے کہا کہ میں ایک متحرک معیشت ، مستحکم زرعی شعبے کے لئے کام کر رہا ہوں۔ میری خواہش ہے کہ ہر شخص کو رہنے کیلئے گھر اور بجلی کی سہولت حاصل ہو۔ ہمارے نوجوان پیشہ ورانہ صلاحیتیں حاصل کر سکیں۔ بھارت میں 100 اسمارٹ شہر بسائے جائیں گے۔ ملک کے ایک ارب سے زیادہ لوگوں کو براڈ بینڈ کی سہولت حاصل ہو اور ملک کے سارے دیہات مواصلت کے جدید طریقوں سے جدید ڈیجیٹل دنیا کے ساتھ جوڑ دیئے جائیں۔ ہم ملک میں اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق جدید ریلوے ، سڑکیں اور بندرگاہوں کا جال استوار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ انہوں نے واضح کہا کہ یہ باتیں محض خواب نہیں ہیں بلکہ ہم ایک محدود مدت کے اندر ان منصوبوں کو مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

کانگریس سے خطاب میں نریندر مودی نے بھارت کی ایسی خوبصورت تصویر کشی کی ہے اور اپنے خوابوں کا ایسا سہانا جہاں پیش کیا ہے کہ فوری طور پر تو امریکی کانگریس کے سارے ارکان عش عش کر اٹھے اور کھڑے ہو کر ان خوابوں کی تکمیل کیلئے تالیاں بجاتے ہوئے بھارتی وزیراعظم کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ مشترکہ مفادات کی چمک میں امریکی رہنما یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا کے غریب ترین ملکوں کی فہرست میں شامل کثیر آبادی والے ملک کی ترقی کے لئے جو باتیں نریندر مودی کر رہے ہیں، ان کا حصول علاقے میں مکمل امن اور اپنے لوگوں کو مکمل آزادی دیئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ یہ خواب جنگی تیاریوں یا ایٹمی صلاحیت کے حامل ہمسایہ ملک کو نظر انداز کرنے اور غیر اہم قرار دینے سے پورا نہیں ہو سکتا۔ بھارت کی ایک چوتھائی آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے اور ملک کی مذہبی اقلیتوں کو حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں شدید اذیت کا سامنا ہے۔ اس پارٹی کی رہنما سادھوی پراچی نے حال ہی میں یہ بیان دیا ہے کہ اب مسلمانوں کو بھارت سے نکالنے کا وقت آ گیا ہے۔ بی جے پی اس بیان کو مسترد کرنے میں ناکام ہے۔ اس لئے صرف ترقی کا نعرہ لگا کر سنگین حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

نریندر مودی نے پاکستان میں پھلنے پھولنے والی دہشت گردی کا ذکر تو کیا ہے لیکن وہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی اور اپنے جمہوری حق کا مطالبہ کرنے والے ڈیڑھ کروڑ کشمیریوں کے خلاف بھارتی فوج کی دہشت گردی کا ذکر نہیں کرتے۔ ان مظالم کی داستانیں اور ہولناک اعداد و شمار اب انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی متعدد عالمی تنظیمیں ریکارڈ پر لا چکی ہیں۔ کوئی بھی بھارتی لیڈر ان حقائق کا سامنا کئے بغیر، جب بھی ترقی اور دنیا کی قیادت کرنے کی بات کرے گا تو وہ صرف خود کو دھوکہ ہی دے گا۔ زمینی حقایق کو تبدیل کرنے کی کوشش کئے بغیر خوشحالی اور سلامتی کے خواب بے معنی ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت مسلسل اپنے سے کئی گنا چھوٹے ملک پاکستان کے ساتھ تصادم کی کیفیت بحال رکھے ہوئے ہے اور خطے میں امن اور خوشحالی کے کسی ایسے منصوبے میں شریک ہونے کے لئے تیار نہیں ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہو۔

امریکہ اور بھارت اس وقت مشترکہ مفادات کی چکا چوند میں حقائق کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ امریکہ کو بھارت کی وسیع منڈیاں نظر آتی ہیں جہاں وہ اپنی مصنوعات کھپا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی قوت اور عسکری چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے بھی بھارت کے وعدے سہانے دکھائی دیتے ہیں۔ بھارت غیر جانبداری کے خول سے باہر نکل کر اب دنیا کی سب سے بڑے سرمایہ دار ملک کے ساتھ پینگیں بڑھانا چاہتا ہے تا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان رخنہ ڈال کر علاقے اور عالمی منظر نامے میں پاکستان کو تنہا کیا جا سکے۔ نئی دہلی کے لیڈروں کا خیال ہے کہ اگر امریکہ، پاکستان کے ساتھ تعلقات محدود کر لے تو وہ پاکستان کو اپنی شرائط پر معاملات طے کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ فی الوقت امریکہ اگرچہ تیزی سے بھارت کی طرف دوستی کے قدم بڑھا رہا ہے لیکن وہ پاکستان کو تنہا چھوڑ کر نہ تو افغانستان میں اپنے مسائل میں اضافہ کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اسے مکمل طور سے چین کے گروپ میں دھکیل کر ایک اہم ملک پر اپنا اثر و رسوخ ختم کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔

ان حالات میں اگرچہ اسلام آباد کو بھی پوری تیاری سے اپنی خارجہ اور سکیورٹی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنا ہو گی لیکن واشنگٹن کو بھی یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ وہ دنیا کو بھارت کی فراہم کردہ عینک سے دیکھتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کر سکتا۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments