میری بدنامی کے دو قصے


ان لڑکوں کی مسکراہٹ کو دیکھ کر میں مسکرا دیا، اور مکان کا راستہ پوچھا، تو ایک لڑکا رہنمائی کرتے مجھے اپنے ساتھ اس مکان کے زینہ تک لے گیا، جو پچھلی طرف تھا۔ میں اس مکان کے زینہ تک پہنچا، تو بے تکلف زینہ کے اوپر چڑھ گیا۔ پھر اوپر جا کر دیکھا، تو دروازہ اندر سے بند تھا، تاکہ کوئی شخص ان کے مکا ن میں داخل نہ ہو سکے۔ میں نے دروازہ پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹایا، تو اندر سے ایک زنانہ آواز آئی:۔
” کون ہے؟ “

میں نے کوئی جواب نہ دیا، مگر شرارتاً پھر زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرے زور سے دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے، اور یہ باز نہیں آتا“۔ آشا کی ماں یعنی ماسٹر ناتھ کی بیوی اپنی بیٹی کی اس شکایت کو سن کر دروازہ پر آئی، اور اس نے اندر سے ہی تحکمانہ لہجہ میں کہا:۔
” تم کون ہو، جو دروازہ کھٹکھٹا رہے ہو۔ جاؤ یہاں“۔

یہ سن کر میں نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا، تو آشا کی ماں نے بہت احتیاط کے ساتھ آہستہ سے دروازہ کھولا۔ اسے شک تھا، کہ گلی میں آوارہ گر دی کرنے والے کالجوں کے لڑکے اوپر آنا چاہتے ہیں۔ دروازہ کھلنے پر جب آشا کی ماں نے مجھے دیکھا، تو اس نے انتہائی خوشی کا اظہار کرتی ہوئے ربابیا نہ انداز میں کہا:۔
” رکھاں گورواں دیاں، کدوں آئے او“ ( آپ پر گورو صاحبان کی رحمت نازل ہو، آپ کب آئے ہیں؟ )۔

دروازہ کھلا، میں اندر چلا گیا، تو گھر کے تمام لوگوں نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ آشا کا باپ بھائی نا تھ بخار میں مبتلا تھا، اور وہ ایک کمرہ میں ریشمی ر ضائی اوڑھے لیتا ہوا تھا۔ ریشمی رضائی، ریڈیو اور فرنیچر کو دیکھ کر میں نے اندازہ کر لیا، کہ ا ن پر خدا کا فضل ہے۔ ماسٹر ناتھ کا دہلی کا افلاس ختم ہو چکا ہے، اور اب خوشحالی کے دن ہیں۔ میں ان کے مکان پر دس منٹ کے قریب بیٹھا۔ ماسٹر ناتھ سے باتیں ہوئیں۔ کاروبا ر کی حالت پوچھی۔ آشا نے تو اپنے تمام ساز دکھائے، جو اس کے گانے کے وقت بجائے جاتے ہیں، اور اس کی بہن حشمت نے پنچابی کی اپنی ایک دو نظمیں دکھائیں، کیونکہ اس لڑکی کو لکھنے کا بہت شوق ہے، اور یہ اب منشی فاضل کا امتحان بھی پاس کر چکی ہے۔

ان سب سے بات چیت کرنے اور اس وعدہ کے بعد، کہ میں پھر جب کبھی لاہور آیا، ان کے ہاں آیا کر وں گا، زینہ سے نیچے اترا، اور گلی میں پہنچا، تو دیکھا، کہ فلم زدہ لڑکے بدستور ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر چکر کلٹ رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر یہ پھر مسکرائے۔ جس کا مطلب یہ تھا، کہ میں تو خوش نصیب ہوں، کہ مجھے آشا پوسلے کی بازیابی نصیب ہوئی، اور یہ لڑکے بدنصیب ہیں، جو بدستور چکر کاٹ رہے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ کو دیکھ کر میں بھی مسکرا دیا، اور مسکرائے ہوئے ان لڑکوں سے کہا، کہ:۔ ” میں تم لوگوں کی طرح فلم زدہ نہیں ہوں۔ میں تو آشا پوسلے کے باپ بھائی ناتھ سے ملنے گیا تھا، میرے ان کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں“۔

میرے اس بیان کو سن کر لڑکوں کی مسکراہٹ ہنسی میں بدل گئی، اور ایک لڑکے نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا:۔
” جی ہاں! ہم سب جانتے ہیں، کہ آج کل داڑھیوں کے پردہ میں کیا کچھ ہو رہا ہے، آپ اپنی صفائی پیش نہ کیجئے“۔
یہ سن کر میں ہنس دیا، اور چلا آیا۔ راستہ میں سوچتا رہا، کہ بد کے مقابلے پر بدنام زیادہ قابل تعزیر ہے۔

انسان کا فرض ہے، کہ وہ اپنے دامن کو بدیوں سے بجائے۔ مگر اس سے زیادہ ضروری ہے، کہ انسان بدنام نہ ہو، اور وہ محتاط رہے۔ کیونکہ پچھلے واقعات گواہ ہیں، کہ احتیا ط نہ کرنے کے باعث وہ لوگ بھی بدنام ہوئے، جو انتہائی بلند اور نیک تھے۔ حالانکہ ان کا قصور کوئی نہ تھا۔ اور اس سلسلہ میں مہاتما گاندھی کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے، جن پر انتہائی بلند، انتہائی پارسا اور انتہائی نیک ہوتے ہوئے بھی بعض کم ظرفوں نے ان کی زندگی میں ان پر غلط اور بے بنیاد الزامات لگائے۔

سیف و قلم سے اقتباس

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon