لاہور کی ٹبی گلی سے شہر میں منتقل ہونے والے چکلے


میرے اشارے پر پولیس کی گاڑی رک گئی اور تعارف کروانے پر ایک سب انسپکٹر کے چہرے پر ناگوار تاثرات ابھرے۔ میرے اصرار کرنے پر وہ بولا : کہ ”جنا ب والا، آپ تو صحافی ہیں، آپ کو تو سمجھداری کی بات کرنا چاہیے۔ ہم اس طرح بلا وارنٹ اور مجسٹریٹ کی موجودگی کے بغیر کسی کے گھر میں کیسے داخل ہو سکتے ہیں۔ “ پولیس آفیسر دانستہ طور پر اونچی آواز میں گفتگو کر رہا تھا تا کہ مطلوبہ گھر میں موجود افراد آگاہ ہو جائیں اور وہی ہوا۔ محلے داروں کے ساتھ ساتھ مطلوبہ مکان سے بھی چند ایک افراد باہر نکل آئے۔ میں نے صورت حال کی نزاکت دیکھتے ہوئے اپنے موبائیل فون سے ایک سینئر پولیس آفیسر سے بات کی اور ان سے مدد کی درخواست کی۔

اس پولیس آفیسر نے کہا کہ میں متعلقہ تھانے کا عملہ بھجوا رہا ہوں۔ اتنی دیر میں میرے دیکھتے ہی دیکھتے چند افراد گھر سے نکلے اور اپنی گاڑیوں میں بیٹھ کر فرار ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ میں انہیں اسلحہ کے زور پر تو نہیں روک سکتا تھا! اور پولیس والے خاموش تھے۔ پولیس کی مدد ضرور آئی لیکن اس وقت جب مجرم فرار ہو چکے تھے۔ مجھے اس رات کئی گھنٹے تھانے میں رہنا پڑا کیونکہ ایس ایچ او گشت پر تھے اور ان کی آمد کے بعد ہی پرچہ درج ہونا تھا۔ وہ خاتون جو کرایہ دار تھی اس نے پہلے تو مجھے برا بھلا کہا اور پھر مصالحت پر اتر آئی۔ میرے فوٹو گرافر کے پاس اس گھر سے فرار ہونے والوں کی تصاویر تھیں جنہیں ہم نے اگلے روز شائع کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرایہ دار خاتون مکان چھوڑ کر چلی گئی اور کئی ہفتے کی تگ و دو کے بعد پولیس نے رپورٹ مکمل کی کہ ” ملزمان تلاش نہیں کیے جا سکے۔ “ اس تمام ایکسرسائز کا کم از کم اس محلے کے لوگوں کو فائدہ ضرور ہوا اور پھر دوبار ہ کسی نے وہاں قدم جمانے کی کوشش نہ کی۔

یہ تو صرف ایک مثال تھی ورنہ صور تحال یہ ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں لوگ جسم فروشی خواتین سے تنگ ہیں لیکن وہ عموماً ان کے خلاف کر کچھ نہیں پاتے۔ کسی زمانے میں لاہور میں 15 یا 20 چکلے تھے مگر اب بات ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق لاہور میں 10 ہزار سے زائد چکلے موجود ہیں اور بعض اداکارائیں نہ صرف ان چکلوں سے پیسہ کما رہی ہیں بلکہ وہ شراب کی غیر قانونی خرید و فروخت میں بھی ملوث ہیں۔

کسی زمانے میں شرفا ء کے کہنے پر کام ہوا کرتے تھے لیکن اب ہر سطح پر اے کلاس طوائف کی سفارش کام آتی ہے۔ بڑے بڑے ٹھیکدار اور افسر اپنے اپنے کام کروانے کے لئے طوائفوں کے در پر حاضری دیتے ہیں جب طوائف کے تعلقات ملک کے وزیراعظم، گورنر اور وزیراعلیٰ تک ہوں تو کوئی ان کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔

عورت اور بازار سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2