لاہور کی ٹبی گلی سے شہر میں منتقل ہونے والے چکلے


ایک مرتبہ لاہور کے ایک صحافی نے کسی مخصوص کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ مجھے اس کا عورت کو اس طرح ذلیل کرنا اچھا لگا۔ میں نے کہا :
” راشد بڑے افسوس کی بات ہے۔ “
وہ بولا ”میں نے ایک طوائف کو گالی دی کسی عورت کو نہیں۔ “
میں نے کہا : عورت اور طوائف میں کیا فرق ہے؟ “
وہ بولا : انتا ہی جتنا بھینس اور عورت میں فرق ہے۔ “

مجھے یہ منطق سمجھ نہ آئی تو وہ بولا: ” عورت میری نظر میں عصمت اور شرم و حیا کا نام ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو جاؤ پھر بھینس کو بھی انڈر وئیر پہنا دو کیونکہ Femal organs تو اس کے ساتھ بھی لگے ہوتے ہیں۔

میں راشد کی بات سن کی سٹپٹا کر رہ گیا کیونکہ وہ ایک عجیب تھیوری پیش کر رہا تھا۔ اس کے نزدیک عورت اگر باکردار ہو تو عورت ہے ورنہ نہیں۔ مجھے اس وقت تو کوئی جواب نہ سوجھا لیکن بعد میں کئی دن یہ بات میرے ذہن کو تکلیف دیتی رہی کہ وہی مرد جو عورت کو پھانسنے کے لئے پلان تیار رہتا ہے، جب کوئی خاتون اس کا شکار ہو جائے تو اس کا انداز فکر تبدیل ہو جاتا ہے۔ تب اس کا فلسفہ یہ ہوتا ہے کہ جو عورت میرے ساتھ آ سکتی ہے وہ کسی اور کے ساتھ بھی سکتی ہے۔ یوں ایک ٹریجڈی کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو مد نظر رکھنے والی طوائفیں محبت کے فریب کا شکار نہیں ہوتیں۔

ایوب خاں کے دور حکومت میں جب جسم فروشی کی خلاف قانون قرار دیا گیا اور پولیس نے رشوت کا ریٹ بڑھا دیا تو سمجھدار لوگوں کو رائے تھی کہ اس قانون کو کاغذات تک رہنے دیا جائے اور اس پر عمل نہ کیا جائے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے برائی ختم ہونے کی بجا ئے مزید تیزی سے پھیلے گی۔ لیکن نواب آف کالا باغ نے اس پر کوئی توجہ نہ دی اور انہوں نے جسم فروشی کے خلاف بنائے جانے والے قانون کو اس قدر سختی سے نافذ کیا کہ طوائفوں کو دو وقت کی روٹی کی مصیبت پڑ گئی۔ وہی پولیس حکام جو رشوت کے عوض گانا سن لیا کرتے تھے یا جنسی تسکین حاصل کر لیا کرتے تھے، وہ اب نقد رقم کا مطالبہ کرنے لگے۔

ریاستی قوت کے بے دریغ استعمال کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ بازار حسن میں موجود چکلہ بند ہو گیا۔ جب تک جسم فروشی کی ممانت نہ تھی لوگ بے دھڑک طوائف کے پاس چلے جایا کرتے تھے قوانین میں تبدیلی کے بعد انہوں نے طوائف کے بتائے ہوئے ایڈریس پر جانا شروع کر دیا۔ شروع شروع میں جسم فروشی کا دھندہ کرنے والیوں کو سخت تکلیف ہوئی لیکن آہستہ آہستہ انہوں نے فیشن ا یبل علاقوں میں آباد ہونا شروع کر دیا۔ اس طرح چکلے کوٹھے سے کوٹھیوں اور مکانات میں منتقل ہونا شروع ہو گئے۔

ٹبی گلی کے بوسیدہ اور تنگ کمروں سے شہر کی کھلی فضاؤں اور فیشن ابیل علاقوں میں منتقلی کے بعد طوائفوں اور ان کے دلالوں نے گھر کے اخراجات اور معاشرے میں سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لئے نئے شکار پھانسنے شروع کر دیے اور گاہکوں کی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے نئی لڑکیاں تلاش کی گئیں۔ وہ کام جو ٹبی گلی میں خطرناک تھا، اب قدرے آسان ہو گیا۔ لوگ کسی قسم کے خوف میں مبتلا ہوئے بغیر مطلوبہ کوٹھی میں دن رات کی تمیز کیے بغیر داخل ہوتے اور داد عیش دینے کے بعد گمنام علاقوں میں گم ہو جاتے۔

ایک طوائف کو اپنے گاہک کی گاڑی پسند آ گئی۔ اس نے منصوبہ بندی کر کے مخصوص لمحات میں فرمائش کی اور اس کے عاشق نے جابی اس کے حوالے کر دی۔ یہ قصہ مشہور ہوتے ہوتے جب جسم فروشوں کی دنیا میں پہنچا تو ایک بولی: ” گاڑی تو کیا میں تو گھر لے سکتی ہوں۔ “ اور اس نے گھر لے لیا۔ اس طرح کسی کے خواب چکنا چور ہوتے رہے اور کسی کے خواب حقیقت کا روپ دھارتے رہے۔

حکومت سطح پر غلط مواقع پر غلط فیصلے کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں کم از کم ایک چکلہ موجود نہ ہو۔ اس علاقے میں رہنے والے اپنے گھر کے نزدیک بننے والے گندگی کے ڈھیر کو دیکھ کر جلتے رہتے ہیں مگر وہ کر کچھ نہیں سکتے کیونکہ جسم فروش خواتین وسائل رکھتی ہیں اور ان کو ملنے والے کبھی کبھار اسلحہ کی نمائش کر کے شرفاء کی زبان پر تالا لگا دیتے ہیں۔ اول تو کوئی شکایت ہی نہیں کرتا اور کوئی تھانے تک پہنچ بھی جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے جب پورے کے پورے معاشرے میں کرپشن اپنے پاؤں جما چکی ہو تو پولیس سے انصاف کیسے مل سکتا ہے؟

پولیس تو ہے ہی بے انصافی کا دوسرا نام۔ ملک میں ہونے والے 80 فیصد جرائم اور جرائم کا ارتکاب کرنے والے پولیس کی نظر میں ہوتے ہیں لیکن مجرموں کے خلاف محض اس لئے کارروائی نہیں ہوتی کہ وہ پولیس کو بھتہ ادا کرتے ہیں۔ اس طرح جسم فروش خواتین بھی پولیس کے متعلقہ ایس ایچ او سے لے کر اوپر کی سطح تک جس قدر ممکن ہو سکے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور ہر اپنے تعلقات قائم رکھتی ہیں۔

ایک دفعہ میرے اخبار میں ایک خاتون نے فون کیا۔ وہ بہت پریشان تھی۔ اتفاق سے فون میں نے اٹینڈ کیا۔ وہ بولی ” بھائی ہم کئی ماہ سے ایک الجھن کا شکار ہیں آپ ہماری ہیلپ کریں۔ “

میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ چند ماہ پہلے ان کے پڑوس میں ایک گھر خالی ہوا اور اس میں ایک بوڑھے بابا جی اور دو خواتین شفٹ ہو گئیں۔ محلے داروں نے سوچا کہ چھوٹی سی فیملی ہے، شریف لوگ ہیں اس لئے ان کے ساتھ اچھا وقت گزرے گا۔ لیکن چند دنوں بعد ہی کرایہ داروں کے گھر میں نئے نئے مہمان آنے لگے۔ شروع شروع میں تو محلے داروں نے نوٹس نہ لیا، لیکن جب ایک رات موسیقی کے ساتھ ساتھ ڈانس کی آواز آئی ہمسائے میں رہنے والے چونکے۔

سامنے گھر میں رہنے والوں نے چھپ کر دیکھا تو انہیں عجیب منظر دکھائی دیا۔ دو نوجوان لڑکیاں ناچ رہی تھیں اور کئی مرد جھوم رہے تھے، کئی گھنٹے محفل موسیقی جاری رہی۔ ڈانس اور موسیقی ختم ہونے کے بعد لوگ کمروں میں منتقل ہو گئے اور صبح کے آثار نمودار ہونے سے پہلے گاڑیاں اور گاڑی والے واپس جانا شروع ہو گئے۔ اب محلے داروں کا شک یقین میں بدل گیا اور ان میں سے کسی نے پولیس کو شکایت کر دی۔ بس پھر کیا تھا۔ نئی کرایہ دار خاتون ایک د ن اچانک گھر سے نکلی اور اس نے با آواز بلند اپنے گیٹ پر کھڑے ہو کر محلے داروں کو صلواتیں سنانا شروع کر دیں۔ وہ فحش گوئی کی حدود کو پھلانگ کر دعویٰ کر رہی تھی کہ ہم عزت دار لوگ ہیں اور کسی حرام زادی نے تھانے فون کر کے کہا ہے کہ ہما رے گھر مشکوک لوگ آتے ہیں۔ حالا نکہ رات میرے بھائی اور ان کے بچے آئے ہوئے تھے۔ کسی کی ہمت نہ تھی کہ کرایہ دار خاتون کو کہتا کہ ” بہن! کم از کم بھائی کے رشتے کو تو بدنام نہ کرو“۔

فون کرنے والی خاتون نے مجھے اپنا ایڈریس بتایا اور ساتھ ہی التجاکی کہ میں ان کا کسی کے سامنے نام نہ لوں۔ میں نے را ت کو اپنے فوٹو گرافر کو ساتھ لیا اور مطلوبہ مکان کے سامنے جا کر کھڑا ہوا۔ واقعی وہاں جدید ماڈل کی کئی گاڑیاں کھڑی تھیں اور سوائے اس مکان کے باقی سب گھروں کی لائٹیں بجھی ہوئی تھی۔ ابھی وہاں کھڑے زیادہ دیر نہ گزری تھی۔ کہ اچانک پولیس کی گاڑی نظر آئی۔ میں نے سوچا کہ چلو پولیس کو ساتھ ملا کر گھر میں داخل ہو جاتے ہیں اور جو آئے اس کی تصویر بنا لی جائے۔ اس وقت تک مجھے معلوم نہ تھا کہ پولیس کی گاڑی اس گھر میں موجود تماش بینوں کی حفاظت کے لئے گشت کر رہی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ پر کلک کریں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2