شفاف انتخابات اور میجر جنرل آصف غفور کی ضمانت


پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے لندن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات ملکی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات تھے۔ انہوں نے یہ شکایت بھی کی کہ فوج پر انتخابات میں دخل اندازی کا بے جا الزام لگایا جاتا ہے۔ فوج تو ایک منظم ادارہ ہے جو ملکی سلامتی کی حفاظت میں دل و جان سے مصروف ہے۔ اس طویل گفتگو میں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ ملک میں ہونے والے احتساب کے معاملات سے بھی فوج کا کوئی لینا دینا نہیں ۔ وہ تو ملک کے دو اطراف سرحدوں کی حفاظت کرنے میں مصروف ہے۔ میجر جنرل آصف غفور نے میڈیا سے اس گفتگو میں فوج کی غیرجانبداری سامنے لانے کے لئے اداروں کے احترام اور جمہوریت کی ضرورت کے بارے میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اس لئے غلط ہیں کیوںکہ ان کے بارے میں کسی نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔ اس لئے اگر کسی کے پاس کوئی ثبوت ہے تو وہ سامنے لے کر آئے۔ اس مطالبے کی اصابت کو تسلیم کرتے ہوئے اس دلیل کا رخ میجر جنرل آصف غفور کی طرف کرتے ہوئے یہ دریافت کیا جاسکتا ہے کہ اگر فوج کو غیر جانبدار ہونے کا زعم ہے اور اس نے انتخابات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی ہے تو وہی اپنی ’بے گناہی‘ کا کوئی ثبوت سامنے لے کر آئیں ۔ فوج کو تو معلومات حاصل کرنے کے تمام ممکنہ وسائل پر دسترس بھی حاصل ہے۔

گزشتہ چند برس سے ملک میں سیاسی معاملات کو جس نہج پر چلایا جارہا ہے، اس کے بارے میں اکثر و بیشتر پریشانی کا اظہار سامنے آتا رہتا ہے۔ سیاسی معاملات کی نگرانی اور غیر منتخب اداروں کی مداخلت کے حوالے سے نہ صرف یہ کہ افواہیں سامنے آتی ہیں بلکہ اکثر و بیشتر یہ رائے بھی دی جاتی ہے کہ ملک کی سیاسی حکومتوں کو فوجی اداروں کی رائے سے اختلاف کرنے اور مختلف قومی امور پر منتخب قیادت کی صوابدید کے مطابق رہنما اصول متعین کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ اسے سیاست دانوں کی کمزوری، نااہلی، بدعنوانی یا کم ہمتی ۔۔۔ جو دل چاہے کہا جاسکتا ہے لیکن یہ بات کوئی قومی راز کی حیثیت نہیں رکھتی کہ ملک کی منتخب پارلیمنٹ میں خارجہ، سلامتی، ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات حتیٰ کہ اہم اقتصادی معاملات پر بھی مناسب بحث نہیں ہو سکتی۔ کیوں کہ یہ فیصلے عسکری اداروں کی مرضی اور تیار کردہ ایکشن پلان کے مطابق کئے جاتے ہیں ۔ ان پر کسی عوامی پلیٹ فارم پر، جن میں پارلیمنٹ بھی شامل ہے جو کسی بھی جمہوری نظام میں بنیادی اہمیت کا ادارہ ہوتا ہے، کبھی مباحث دیکھنے میں نہیں آتے۔ ملک میں درجنوں ٹیلی ویژن چینلوں پر سینکڑوں ٹاک شوز نشر ہوتے ہیں۔ ان مباحث کے مواد اور موضوعات کو پرکھ کر دیکھ لیا جائے تو کلیدی نوعیت کے مسائل پر غیرجانبدارانہ گفتگو سننے کو نہیں ملے گی۔ ان مباحث میں کسی دلیل یا ثبوت کے بغیر بھی سیاست دانوں کی کردار کشی پر مبنی مواد تو براڈ کاسٹ ہو سکتا ہے لیکن کبھی یہ بحث سامنے نہیں آتی کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو فقید المثال کامیابی حاصل کی گئی ہے، اس کے پیچ و خم کا جائزہ بھی لے لیا جائے۔ یہ بات بھی کرلی جائے کہ اس جنگ کے دوران کامیابی کی کیا قیمت ادا کرنا پڑی اور یہ پرائی جنگ افغانستان سے رینگتی ہوئی پاکستان کے گلے کی ہڈی کیوں بن گئی۔ دہشت گردی میں کامیابیوں کی نوید دینے والے فوجی ترجمان کبھی میڈیا، ماہرین یا دانشوروں کو اس پیچدہ اور گنجلک معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر آزادانہ اور خودمختارانہ بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔

اسی طرح قومی سلامتی کا تحفظ بلاشبہ فوج کا بنیادی کام ہے۔ لیکن قومی سلامتی کی وضاحت اور اس کے خدوخال کی تعریف کرنا ملک کی منتخب حکومت کا کام ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن پاک فوج اور اس سے منسلک اداروں نے کبھی اس بات کی اجازت نہیں دی کہ منتخب عوامی پلیٹ فارم پر ان امور پر بحث ہو سکے اور ملک کی اقتصادی ضرورتوں، سفارتی حالات اور خارجہ تعلقات کے حوالے سے اس کی از سر نو تشریح و توضیح کی جاسکے۔ اس کے برعکس یہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ فوج نے قومی سلامتی کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے نہ صرف اس کی تعریف کو اپنے فرائض منصبی میں شامل کرلیا ہے بلکہ اب خارجہ امور اور اقتصادی معاملات کو بھی فوج کے نصب العین کے مطابق طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔ بھارت کے علاوہ امریکہ اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت اور پیچیدگیاں اور سی پیک کے معاملہ میں فوج کی حد سے بڑھی ہوئی دلچسپی اور ضمانتیں، اس مشکل مگر ناقابل فہم تصویر کے نقوش کو نمایاں کرتی ہیں۔ ملکی سیاست کے حوالے سے کسی فوجی ترجمان کے سیاسی بیان کو غیر سیاسی قرار دے کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی مختصر تاریخ میں قومی سیاست میں فوجی مداخلت کے اثرات بہت گہرے ہیں۔

فوج نے 35 برس کے لگ بھگ براہ راست ملک پر حکومت کی ہے ۔ ان ادوار کے دو پہلو بہت اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان آمرانہ ادوار میں بعض ایسے فیصلے کئے گئے جن کے اثرات سے پاکستان اب بھی گلو خلاصی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہؤا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ملک کے جمہوری عمل پر اعتبار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اب ووٹ دیتے ہوئے بھی لوگوں کو اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ ان کے منتخب لوگ ہی فیصلے کرنے کے مجاز ہوں گے یا وہ جس پارلیمنٹ کو منتخب کررہے ہیں اسے کام کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ملک کی جمہوری قیادت کے سر پر مسلسل فوج کی طرف سے کسی اچانک طبع آزمائی کے خوف کی تلوار لٹکی رہتی ہے۔ سیاست دانوں کے علاوہ متعدد مبصر اور دانشور بھی ’حقیقت پسندی‘ کا واسطہ دیتے ہوئے یہ بتاتے رہتے ہیں کہ جمہوریت کی حفاظت کے لئے فوج کو ناراض نہ کیا جائے۔

1973  کے آئین میں جمہوری حکومت کے خلاف فوجی مداخلت کو روکنے کے لئے شق چھے شامل کی گئی تھی۔ لیکن اس آئین کے بانی کو ہی ملک کی ایک فوجی حکومت نے پھانسی پر چڑھا کر یہ واضح کردیا کہ آئین کی اس وقت تک کوئی حیثیت نہیں ہے جب تک ملک کے عسکری ادارے یہ سبق سیکھنے پر تیار نہ ہوں کہ ان کا کام حکومت کے احکامات کو ماننا ہے ۔ وہ یہ فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں کہ کون سی بات ملک کے فائدے میں ہے اور کس سے اسے نقصان پہنچے گا۔ کیوں کہ اسی سلوگن کی آڑ میں فوجی جرنیلوں نے چار بار ملک پر طویل عرصہ تک حکومت کی ہے۔ لیکن ان آمریتوں میں جو غلط فیصلے کئے گئے فوج آج تک ان کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اگر سیاست دانوں کو بدعنوانی سے روکنے اور برے انتظام حکومت کی سزا دینا فوج کی ذمہ داری ہے تاکہ ملک کی ’سلامتی‘ برقرار رہے تو ان غلطیوں کا بھی حساب ہونا چاہئے جب فوجی حکمرانوں نے براہ راست یا بالواسطہ طور سے فیصلے کئے یا کروائے۔ اور بعد میں ملک و قوم کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ ملک کے متعدد وزرائے اعظم کو بدعنوانی کا الزام لگاتے ہوئے کام کرنے سے روکا گیا لیکن کسی فوجی حکمران کے کسی فیصلہ کے خلاف ملک کی کوئی عدالت بھی حکم دینے سے معذور رہی ہے۔

انتخابات میں شفافیت کی ضمانت دیتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے گو اپنے ادارے کی تنظیم اور ڈسپلن کی مثال دی ہے لیکن ان کی ساری باتیں سیاسی ہیں۔ یہ سیاسی باتیں بھی پاکستان سے باہر برطانیہ میں کی گئی ہیں۔ فوج کے ترجمان کو یہ بتانا چاہئے کہ فوج کے ضابطہ اخلاق یا ملکی آئین کی کون سی شق کے تحت فوجی نمائندے کو سیاسی باتیں کرنے یا سیاسی معاملات میں رائے زنی کا حق حاصل ہے۔ حالیہ انتخابات کو ملکی تاریخ کا شفاف ترین انتخاب قرار دیتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور نے دراصل تحریک انصاف کے علاوہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے مشترکہ مؤقف کو مسترد کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں جھوٹ بول رہی ہیں اور ان کے پاس انتخابی دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک تنازعہ ہے۔ حیرت ہے کہ اگر فوج کا اس میں کوئی کردار نہیں تو اس کے ترجمان کو اس کی وضاحت کرنے اور اتنے واشگاف لفظوں میں اپوزیشن جماعتوں کے مؤقف کو مسترد کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہورہی ہے۔ اتنا سخت اور دوٹوک مؤقف تو وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پارٹی بھی اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں کرتی۔ جنہوں نے اب دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لینے کے لئے ایک پارلیمانی کمیٹی بھی قائم کردی ہے۔

ملک میں جولائی میں ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہونے والی پارٹی نے حکومت قائم کرلی ہے۔ اپوزیشن نے بھی اس حقیقت حال کو قبول کر لیا ہے اور انتخابات پر شبہات کے باوجود اسمبلیوں میں شمولیت اختیار کرکے نام نہاد حقیقت پسندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن فوجی ترجمان کے تازہ بیان سے ایک بار پھر انتخابات کے بارے میں شبہات کو تقویت ملے گی اور دال میں کچھ کالا ہے کا تاثر قوی ہوگا۔ میجر جنرل آصف غفور کو یاد رہے کہ موجودہ وزیر اعظم اور اور فوج کے ممدوح عمران خان نے 2013 کے انتخابات کے بعد جب دھاندلی کا شور مچاتے ہوئے ملک کو میدان کارزار بنایا تھا اور پانچ ماہ تک اسلام آباد میں دھرنا دے کر حکومت کو مجہول کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی تب بھی فوج کو دھاندلی کے حوالے سے کوئی بیان دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ تو کیا وجہ ہے میجر جنرل آصف غفور اب 2018 کے انتخابات کے ضامن بن کر سامنے آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali