محترمہ حفصہ نور کے کالم ًچرچ سے ملّا تک ً کے بارے  میں


\"mکل ًہم سب ً پرمحترمہ حفصہ نور کا ایک کالم پڑھنے کا اتّفاق ہوا جس میں انہوں نے چرچ اور ملّا کے مابین پائی جانے والی تاریخی اور نظریاتی مماثلت کے بارے میں گزارشِ احولِ واقعی کرتے ہوئے اپنے معاشرے کے چند تاریک پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا تھا۔

ستم ظریفی یہ ہوئی کہ محترمہ نے اپنی بات کہتے ہوئے کسی بھی قسم کی مصلحت سے کام نہیں لیا۔ کہتے ہیں (اور بجا طور پر کہتے ہیں) کہ سچ اکثر کڑوا ہوتا ہے۔ اور ویسے بھی سچائی کا سامنا کرنا عقیدوں کی زنجیروں میں جکڑے لوگوں کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اور ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو بچپن سے ہی کھلونوں کی جگہ عقیدوں کے غباروں سے بہلانا ہمارے ہاں کا ایک لگا بندھا، اور طے شدہ معمول ہے۔

خیر بات ہو رہی تھی محترمہ حفصہ نور کے اس کالم ًچرچ سے ملّا تک ایک ہی لکیر ً کی۔ میری عادت ہے کہ میں کالم کے علاوہ لوگوں کی رائے (کمنٹس) بھی پڑھتا ہوں کہ اس سے لوگوں کی عمومی سوچ کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کالم پر ایک تبصرہ نگار (جناب فیض علی شاہ) نے فرمایا :

 ًلکھے گئے کالم کو دل کی بھڑاس تو کہا جا سکتا ہے مگر کالم نگار نے اپنے دعوی (حقییقت میں خواہش کے حق میں کسی قسم کی ٹھوس دلیل نہیں دی ً

اور آگے چل کر فرماتے ہیں:

 ًیہ ذہنی مریض ہیں جن کے کپڑوں سے لے کر سوچ تک سب کچھ مغربی لنڈے کا ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے اس رمضان میں خصوصی دعا کرنی چاہیے۔ ً

تو ان صاحب، اور ان صاحب کے ہم خیال لوگوں سے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ کیا آپ ان تمام تاریخی حقائق سے ناواقف ہیں جن کا تذکرہ کالم نگار نے اپنی تحریر میں کیا ہے؟ آپ نے بھی تو فقط یہ کہہ کر اپنی جان چھڑا لی ہے کہ کالم نگار نے اپنے دعوی کے حق میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ ویسے روایتوں اور حکایتوں کے مارے اس معاشرے میں دلیل کی بات کرنا یوں ہی ہے جیسے آپ کسی ان پڑھ مزدور کے ساتھ نظریہِ اضافت یا پھر بِگ بینگ تھیوری پر بات کرنا شروع کر دیں، پھر بھی اتمامِ حجّت کے طور پر میں ان صاحب سے کچھ معصومانہ سوالات ہہر طور کرنا چاہوں گا۔

تو جناب فیض صاحب، ٹھوس دلیل کس بات کی چاہیئے؟ کیا آپ کو یورپ کی چرچ کے تسلط سے آزادی یا نشاۃِ ثانیہ کی تحریک کا تاریخی ثبوت درکار ہے؟ یا اس بات کی واقعاتی دلیل چاہیے کہ ہمارے عظیم ًاسلامی معاشرے ً میں عورت پر تیزاب پھنکنے کا رواج نہیں، یہاں عورتوں پر مار پیٹ نہیں کی جاتی، یا آپ کے محبوب مولوی شیرانی اور ان کے ہم نوا ملّا حضرات عورت کو مارنے کا شرعی جواز نہیں فراہم کرتے؟ کیا اس بات کا ثبوت چاہئیے کہ یہاں پسند کی شادی کرنے پر لڑکیوں کو قتلِ کردینا، انہیں زندہ جلا دینا ایک معمولی بات ہے۔

یہ خیال بھی دل میں آتا ہے کہ ہو سکتا ہے آپ کہ اس بات کی دلیل چاہیئے کہ ہمارے معاشرے میں جہالت ہے ہی کہاں؟ تعلیم کی شرح کب شرمناک حد تک نیچے ہے؟ اور ہاں، آپ کو کالم نگار کی اس بات کا بھی ثبوت درکار ہو گا کہ تاریخ میں عقل و فلسفے کے مفکرین اور ان کے ماننے والوں نے کبھی اپنے فلسفے کو بالجبر منوانے کی کوشش نہیں کی، اور اس کے لئے لوگوں کی گردنیں نہیں اڑائیں۔ ویسے اس بارے میں تو میں اس بات سے متّفق ہوں کہ:

ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد، خدائے بخشندہ

اور صد شکر کہ خدا نے بحرِ علم کے شناوروں کو اس ًسعادت ً سے محروم ہی رکھا۔

آپ کو یقیناً اس بات کا ثبوت بھی درکار ہو گا کہ سعادت حسین منٹو پر فحش نگاری کا الزام لگایا گیا تھا۔ اور اس بات کی شکایت بھی ہو گی کہ کالم نگار نے اپنے اس دعوے کے حق میں بھی کوئی دلیل نہیں دی کہ اسلام میں عصمت دری کے واقعے کو ثابت کرنے کے لئے چار عدد عینی گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبری ازدواجی تعلقات اور مغرب میں میٹرنل ریپ کے بارے میں قانون سازی والی بات بھی آپ کو محترمہ نور کی ذہنی اختراع ہی لگی ہو گی؟

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کو یہ بات چبھی ہو کہ محترمہ نے لاؤڈ سپیکر کو حرام قرار دینے والی بات بِنا کسی ثبوت کے لکھ دی۔ اور آپ کو اس بات کا ثبوت بھی درکار ہو گا کہ سبین محمود کو کب قتل کیا گیا، اس نے تو خودکشی کی تھی۔ (ویسے یہ بات تو اپنی جگہ حقیقت ہے کہ اس معاشرے میں جہاں ممتاز قادری جیسے لوگ لاکھوں کی تعداد میں پائے جاتے ہوں اور کروڑوں کی تعداد میں ان کے چاہنے والے ہوں وہاں جہالت کے خلاف بات کرنا ایک طرح سے خودکشی کرنے کے ہی مترادف ہے)

خیر مجھے ان معترض صاحب اور ان کے ہم خیال خواتین و حضرات کی خدمت میں یہ عرض کرنا ہے کہ آپ کا اعتراض ًبر حق ً ہے اور ہم میں سے کوئی بھی، بشمول کالم نگار، ان باتوں کا ًثبوت ً فراہم نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ ًجھوٹ ً کا ثبوت نہیں ہوتا۔ ہم تو ایک ایسے مثالی معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک محاورے کے مطابق شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیتے ہیں۔ اس پر امن معاشرے اور اس کی نظریاتی و اساسی ًاقدارً پر بے تکے سوالات اٹھانا واقعی (آپ کے بقول) ًذہنی مریضوں ً کا ہی کام ہے اور انہیں حقیقت میں ًخصوصی دعا ً کی ضرورت ہے۔ کہ ان کے ذہن شل ہو جائیں، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہو جائیں تاکہ وہ ان ًمشرکانہ ً خیالات سے نجات حاصل کر پائیں۔

ویسے، آپس کی بات ہے کہ لگے ہاتھوں اس رمضان میں ایک ًخصوصی دعا ً آپ اپنے اور اپنے ہم خیال لوگوں کے لئے بھی کر لیں تو بہتر ہو گا۔ اور ہاں وہ خصوصی دعا کسی طاق رات میں صلوۃِ تصبیح پڑھںے کے بعد کریں تو زیادہ مؤثر ہو گی۔

 

مظفر حسین بخاری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مظفر حسین بخاری

ایم ایچ بخاری ڈیویلپمنٹ پروفیشنل ہیں اور ایک ملٹی لیٹرل ترقیاتی ادارے سے منسلک ہیں۔ کوہ نوردی اور تصویر کشی ان کا جنون ہے۔ مظہر کے تخلص سے شعر کہتے ہیں۔

muzzafar-hussain-bukhari has 19 posts and counting.See all posts by muzzafar-hussain-bukhari

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments