(مکمل کالم) مغربی دنیا کی بدمعاشی


ہم لوگ مغربی ملکوں کی شان میں کچھ زیادہ ہی قصیدے پڑھتے ہیں۔ قصور ہمارا بھی نہیں۔ ایک تو ان ملکوں کی چکاچوند ہی ایسی ہے کہ بندے کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور دوسرا ہمارے کرتوت ایسے ہیں کہ ہر معاشرہ ہی ہمیں آئیڈیل لگتا ہے۔ اور بات صرف چکا چوند ہی نہیں ان کا نظام بھی قابل رشک ہے۔ جب ایسے کسی ملک میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو محدب عدسہ لگا کر ان ملکوں کی خرابیاں تلاش کرتے ہیں تاکہ اپنے بیان کو معتبر بنایا جا سکے۔ کبھی ناروے جیسے ملک میں خود کشی کے رجحان پر چچ چچ کرتے ہیں تو کبھی جرمنی کے تاریخی جرم پر تبرا کر کے خود کو اطمینان دلاتے ہیں کہ ہم ان سے بہتر ہیں۔ لیکن یہ سب دل بہلانے کی باتیں ہیں۔ اندر سے ہم ان ممالک سے اس قدر متاثر ہیں کہ بات بات پر ان کا حوالہ دیتے ہیں، ان کی معاشرت اور طرز حکمرانی کے گن گاتے ہیں، ان کی سیاسی اقدار کی مثالیں دیتے ہیں اور ان کے عوام کے ڈسپلن کو مثالی سمجھتے ہیں۔ یہ سب باتیں درست ہی ہوں گی مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ ان ممالک کا تعصب ہے جو چھپائے نہیں چھپتا۔ کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں۔

9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکہ نے افغانستان کی طالبان حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسامہ بن لادن کو اس کے حوالے کر دیا جائے، طالبان نے یہ مطالبہ تسلیم نہیں کیا، یہ علیحدہ بحث ہے کہ طالبان کو یہ مطالبہ مان لینا چاہیے تھا یا نہیں کیونکہ اسامہ بن لادن کا نام اقوام متحدہ کی دہشت گردوں والی فہرست میں شامل تھا، قانوناً اس فہرست میں شامل افراد کے اثاثے منجمد کیے جا سکتے تھے، ان پر اسلحے کی پابندی عائد کی جا سکتی تھی اور ان کے بین الاقوامی سفر پر پابندی لگائی جا سکتی تھی، یہ کہیں نہیں لکھا تھا کہ اگر ایک ملک دوسرے ملک سے کسی شخص کی حوالگی کا مطالبہ کرے اور جواب میں وہ ملک انکار کردے تو مطالبہ کرنے والا ملک اس پر حملہ کر کے اینٹ سے اینٹ بجا دے گا۔ مگر یہاں مطالبہ کرنے والا ملک چونکہ امریکہ تھا جو دنیا بھر میں جمہوری حقوق کا خود ساختہ علمبردار ہے اس لیے امریکہ نے کھلم کھلا پوری دنیا کو دھمکی دی کہ جو ہمارے ساتھ نہیں اسے ہم اپنا دشمن سمجھیں گے اور پھر افغانستان پر حملہ کر کے اسے کھنڈر بنا دیا۔ بے شک افغانستان پر حملہ 9/11 والے حملے کا منطقی نتیجہ تھا تاہم یہ جوابی حملہ بین الاقوامی قانون کے مطابق تھا یا نہیں، ہم اس پرانی بحث میں نہیں پڑتے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ افغانستان سے نکلنے کے بعد آج 2022 میں امریکہ کا رویہ کیا ہے۔ حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے، جنہیں نجانے کیوں ہم ڈانلڈ ٹرمپ سے بہتر سمجھتے ہیں، ایک انتظامی حکم نامے کے ذریعے افغانستان کے سات ارب ڈالر کے منجمد اثاثوں میں سے نصف کو 9/ 11 واقعے کے متاثرین پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے باقی ساڑھے تین ارب ڈالر افغانستان کے لیے قائم کردہ ایک ٹرسٹ میں رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ حالیہ تاریخ میں شاید ہی کسی مہذب ملک نے اس قدر سفاکانہ اور غیر منصفانہ فیصلہ کیا ہو۔ افغانستان میں اس وقت کروڑوں لوگ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہاں لاکھوں بچے رات کو بغیر کچھ کھائے پئے بھوکے سوتے ہیں، ان کی مائیں اپنے گردے بیچ کے کھانے کا انتظام کر رہی ہیں، باپ اپنی بیٹیوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، یہ سب وہ لوگ ہیں جن کا 9/11 سے دور تک کا بھی کوئی تعلق نہیں اور بچے تو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب 9/11 کا واقعہ ہوا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اگلے دو ماہ میں افغانستان میں دس لاکھ بچے بھوک سے مر جائیں گے مگر دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سپر پاور کی رعونت ملاحظہ ہو کہ ان لاکھوں بچوں کی دو وقت کی روٹی کے پیسے پر قبضہ کر رہا ہے اور کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ اب نہ کوئی بین الاقوامی قانون کی دہائی دے رہا ہے اور نہ کوئی اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے جس کا بازو مروڑ کر افغانستان پر حملے کا جواز بنایا گیا تھا۔ وہ پوری یورپی یونین جو اسرائیل کے خلاف ایک ٹویٹ کو بھی دہشت گردی سمجھتی ہے، جو انسانی حقوق اور علم و دانش کی ٹھیکیدار ہے اور جو مہذب دنیا کی نام نہاد لیڈر ہے، اسے اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ اس مسئلے پر ایک ہنگامی اجلاس ہی طلب کر لیتی۔ بے شک اس فیصلے نے مغربی دنیا کے چہرے ہر کالک مل دی ہے۔

مغربی ممالک کے تعصب کی سب سے بڑی مثال اسرائیل ہے۔ دنیا میں بھارت کے بعد اگر کوئی ایک ملک ہے جو ننگی جارحیت کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل بچوں اور عورتوں کو قتل کرتا ہے، انہیں گھر سے بے گھر کرتا ہے اور سر عام ان کی ذلت اور توہین کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص اسرائیل کے ان اقدامات کی مذمت کرے تو پوری مغربی دنیا لٹھ لے کر اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور اس کا جینا محال کر دیتی ہے۔ دنیا میں احتجاج کا سب سے پر امن طریقہ بائیکاٹ ہے۔ اسرائیل کے خلاف یہ پر امن احتجاج کرنے کا حق بھی امریکہ نہیں دیتا۔ وہاں کئی ریاستوں میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلانا غیر قانونی ہے۔ آج اگر اسرائیل میں کوئی پٹاخہ بھی چل جائے تو پوری یورپی یونین سر کے بل کھڑی ہو کر اسرائیل کے ساتھ اظہار یک جہتی کرے گی اور یہ صرف زبانی نہیں ہو گا بلکہ عملاً بھی اسرائیل کے تمام اقدامات کی حمایت کی جائے گی مگر وہی یورپی یونین افغانستان کے المیے پر منہ میں گھنگنیاں بھر کر بیٹھی ہے حالانکہ یہ تمام ملک امریکہ کے ساتھ افغانستان پر حملے میں ملوث تھے۔ اسی طرح امریکہ اور برطانیہ نے مل کر عراق پر بھی حملہ کیا تھا اور اس حملے کا جواز یہ فراہم کیا تھا کہ عراق کے پاس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار ہیں، یہ بات تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ثابت ہوئی۔ برطانیہ میں اس جنگ کی تحقیقات پر بعد ازاں ایک رپورٹ بھی جاری کی گئی جسے ’شلکوٹ رپورٹ‘ کہا جاتا ہے، اس رپورٹ میں ٹونی بلیر کو تقریباً مجرم قرار دیا گیا۔ مگر اس ٹونی بلیر کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، وہ آج بھی سوٹ اور ٹائی پہن کر نام نہاد مہذب دنیا کے سینے پر مونگ دلتا پھرتا ہے۔ آزادی اور جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کی ’خدمات‘ کے عوض مغربی دنیا نے اسے نصف درجن تمغے دیے جو آج بھی اس کے پاس ہیں۔ وہ دہشت گرد نہیں۔ کیونکہ اس کی داڑھی نہیں، وہ سر پر صافہ نہیں باندھتا اور اس کی بیوی حجاب نہیں اوڑھتی۔ ’مہذب‘ مغربی دنیا کی نظر میں دہشت گرد ہونے کے لیے یہ ’بنیادی شرائط‘ پوری کرنا ضروری ہیں۔

مغربی دنیا کے ان کارناموں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ تاہم مغرب کے عوام کو اس بات کی رعایت دی جا سکتی ہے کہ وہ امن پسند ہیں اور جنگ کو پسند نہیں کرتے جس کا ثبوت جنگ کے خلاف وہ مظاہرے ہیں جو مغربی دنیا میں ہوئے اور جن میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ یہ ان ممالک کی حکومتیں ہیں جو بدمعاش ہیں بالکل غریب ممالک کی طرح جہاں کے عوام تو فلاحی ریاست چاہتے ہیں مگر حکومتیں بدمعاش ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments