2014ء کے لندن پلان کی تحقیقات ضروری ہیں


موجودہ دور میں اطلاعات کا بہائو اتنا تیز ہو چکا ہے کہ معمولی خبر ہو یا بریکنگ نیوز، کوئی چونکا دینے والا انکشاف ہو یا غیر معمولی حقائق ،چند لمحات کے لیے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پہ ہاہاکار مچتی ہے اور ساتھ ہی اس سے زیادہ کوئی اہم معاملہ سامنے آنے پر پچھلی خبر اپنی وقعت کھو بیٹھتی ہے۔ اسی طرح گزشتہ دنوں پاکستان عوامی تحریک کے سینئر رہنما خرم نواز گنڈا پور نے ایک انٹرویو کے دوران یہ کہہ کر میڈیا میں طوفان برپا کر دیا کہ 2014میں نواز شریف کی حکومت کو گرانے کے لیے لندن میں عمران خان، چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی نے طاہر القادری سے ملاقات کی تھی، اس انکشاف کے دوران ہی جب اینکر نے خرم نواز گنڈاپورسے استفسار کیا کہ کیا آپ اعتراف کرتے ہیں کہ لندن پلان کا وجود تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ جو کچھ بھی ہوا وہ جمہوری تھا جبکہ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ یہ طے پایا تھا کہ حکومت کے خلاف تحریک چلائی جائے گی اور اس کے بعد ہی علامہ طاہر القادری نے پاکستان واپس آنے کا اعلان کیا تھا۔

خرم نواز گنڈاپور کے لندن پلان کے اعتراف کا میڈیا نے چند گھنٹے میں ہی پوسٹ مارٹم کیا تھا کہ انہوں نے آئیں بائیں شائیں شروع کر دی اور یہ موقف اختیار کرنے کی کوشش کی کہ لندن میں حکومت کے خلاف دھرنے کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی بلکہ دھرنے کا فیصلہ طاہر القادری کی پاکستان واپسی پر ماڈل ٹائون میں پولیس کے ہاتھوں عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کے بعد کیا گیا تھا۔

اسی دوران لندن پلان کی تصدیق اس وقت کے متحدہ قومی موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی سید علی رضا عابدی نے بھی کر دی کہ علامہ طاہر القادری نے لندن سیکرٹریٹ میں متحدہ کی قیادت کو ٹیلی فون کیے اور حکومت مخالف تحریک کے لیے کراچی کو بند کرنے کی صورت میں حمایت طلب کرتے ہوئے یہاں تک پیشکش کی تھی کہ نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد کراچی ان کے حوالے کر دیا جائے گا۔

میڈیا میں ابھی لندن پلان کے کرداروں کے چہروں سے نقاب ہٹانے کا سلسلہ شروع ہی ہو رہا تھا کہ نیب نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گرفتار کر کے میڈیا کو بحث کے لیے نئے رخ پہ ڈال دیا۔ چند لمحات میں لندن پلان ایک بار پھر نظروں سے اوجھل ہو گیا لیکن حیرت تو یہ ہے کہ خرم نواز گنڈا پور کے اعتراف کے بعد دس روز گزر جانے کے باوجود اس لندن پلان پہ دوبارہ بحث شروع نہیں ہو سکی جس نے نہ صرف پاکستان میں منتخب جمہوری حکومت کی چولیں ہلائے رکھیں بلکہ ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا۔

افسوس تو یہ بھی ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور سازش ،سازش کی مالا جپنے والی مسلم لیگ ن کو پارٹی صدر کی گرفتاری کی فکر تو ہے لیکن یہ معاملہ ان کی ترجیحات میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا جس سے ان کی تمام مشکلات کا آغاز ہوا۔ یہ وہی لندن پلان ہے جس کے بارے میں چہ میگوئیوں پہ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے سختی سے تردید کرتے کہا تھا کہ وہ کچھ نہیں چھپا رہے، انہیں لندن میں جا کر ملاقاتیں کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، وہ یہاں ہی ملاقات کر سکتے ہیں۔ عمران خان نے تب یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ طاہر القادری سےکوئی اتحاد نہیں کر رہے، وہ لندن میں فنڈز اکھٹا کرنے اور اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے آئے ہیں۔

لندن پلان کے تمام کرداروں کی طرف سے تردید کے باوجود لندن میں جنگ اور جیو نیوز سے وابستہ باخبر صحافی مرتضی علی شاہ نے یہ تک بتا دیا تھا کہ عمران خان، طاہر القادری اور چوہدری برادران کے درمیان 28،29 اور 30 مئی 2014 کو تین ملاقاتیں سنٹرل لندن میں مختلف مقامات پہ ہوئی تھیں، ان میں ایک ملاقات اب وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی کے عہدے پہ فائز برطانوی شہریت رکھنے والے زلفی بخاری کے دفتر میں بھی ہوئی تھی۔

قارئین کو بخوبی یاد ہو گا کہ تحریک انصاف کے صدر کے طور پرجمہوریت کے خلاف سازش کا پردہ چاک کرنے والے مخدوم جاوید ہاشمی نے بھی اسی وقت یہ راز آشکار کر دیا تھا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کی لندن میں ملاقات ہوئی ہے اور وہ بدستور رابطے میں ہیں جبکہ لندن ملاقات کے بارے میں انہیں عمران خان نے خود آگاہ کیا تھا۔ یہ یاد دہانی بھی ضروری کہ انقلاب اور آزادی مارچ کے ذریعے حکومت مخالف تحریک سے مطلوبہ نتائج نہ ملنے پہ پلان بی کا خود ذکر کیا گیا تھا اور ساتھ یہ نعرہ بھی بلند کیا گیا تھا کہ ابھی تو پلان سی اور ڈی بھی باقی ہیں۔ پھر اسی پلان بی کے تحت ایک سو چھبیس دن پہ محیط دھرنا دیا گیا تھا۔

تب مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی لندن پلان کا بخوبی علم ہو چکا تھا لیکن اسے زبان پہ لانے کی ہمت نہ ہو سکی تھی۔ اگر مشاہد اللہ خان جیسے ضمیر کے قیدی نے منہ کھولنے کی جرات کی تو اس سے وزارت چھین کر دوسروں کو بھی خاموش رہنے کا سبق دے دیا گیا۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ لندن پلان کے ان کرداروں میں سے ایک اس وقت وزارت عظمیٰ کے عہدے پہ فائز، دوسرے اسپیکر پنجاب اسمبلی کا منصب سنبھالے حکومت کے اہم اتحادی اور تیسرے مناسب معاوضہ نہ ملنے کی صورت میں سب کچھ عیاں کرنے کے لیے تیار جبکہ دوسری طرف لندن پلان کے تحت جس نواز شریف کی حکومت کے خلاف تحریک چلائی گئی وہ بیٹی اور داماد سمیت پابند سلاسل رہنے کے بعد ضمانت پہ رہا لیکن بدستور پیشیاں بھگتنے پہ مجبور۔

نواز شریف ببانگ دہل کہا کرتے تھے کہ وہ تاریخ کو دہرانے نہیں دیں گے لیکن تاریخ کا پہیہ کب کا الٹا گھوم چکا تاہم جمہوریت پسند قوتوں کو خرم نواز گنڈاپور کے اعتراف کی صورت میں تقدیر نے ایسا سنہری موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اس معاملے کو ہر پلیٹ فارم پہ اتنی شدت سے اٹھائیں کہ لندن پلان کی کسی اعلیٰ سطحی پلیٹ فارم پہ تحقیقات کو یقینی بنایا جا سکے۔ اگر اس بار لندن پلان کے کرداروں کا محاسبہ ممکن بنا لیا جائے تو آئندہ کسی کو بیرون ملک بیٹھ کر جمہوری حکومت کے خلاف سازش کرنے کی جرات نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).