نفسیاتی مسائل اور ہماری فراریت


\"Majidآج سے 3 برس پہلے میرے چھوٹے بھائی اکثر اوقات یہ ذکر کرتے رہتے تھے کہ بہت سی ایسی باتیں ہیں جنہیں وہ بھول جاتے ہیں، شاید اسے بھولنے کی بیماری لگ گئی ہے۔ اس وقت بھائی کو میں نے نفسیات دان سے مشورے لینے کا کہا تو اس نے فوراََ انکار کردیا۔ کیوں کہ اس کا اندازہ تھا جب وہ نفسیات دان سے مشورہ کرے گا تو لوگ طرح طرح کی باتیں بنائیں گے۔ کیا پاگلوں والے ڈاکٹر کے پاس گئے تھے؟ اسی خوف سے اس نے سائیکٹرسٹ ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کردیا۔ بھائی مختلف اخبارات میں آئے ادویات کے اشتہارات پڑھ کر ایک ہومیوپیتھک ڈاکٹر کے پاس چلے گئے۔ اس نے ڈاکٹر کو بتایا کہ مجھے بھولنے کی بیماری ہے۔ بھائی ڈاکٹر سے ادویات لے کر گھر آئے اور پوچھنے سے بتانے لگے کہ ڈاکٹر نے ادویات صبح اٹھنے سے فوراََ بعد کھانے کو کہا ہے۔ دن گذرتے گئے کچھ عرصے کے بعد میں نے بھائی سے پوچھا کہ کچھ بتاؤ ادویات کی! کچھ مفید ثابت ہوئی؟ تو بھائی نے کہا ایک مہینے سے ادویات ویسی کی ویسی پڑی ہے، بھولنے کی مرض کی دوا روزانہ لینا بھول جاتا ہوں۔ایک مہینے تک دوا کو ہاتھ نہیں لگا پایا، یہ سن کے میرا بے ساختہ قہقہ نکل گیا۔

گلوبل ولیج میں تبدیل دنیا میں ہمارے معاشرے میں ابھی تک اس رجحان کو تقویت نہیں مل سکی کے ہمارے مسائل کیا ہیں، اور ان مسائل کا حل ہم ڈھونڈ کہاں رہے ہیں؟ ہماری پوزیشن دن بہ دن پیچھے جا رہی ہے۔

نفسیاتی مسائل کا حل طلب جواب بھی نفیساتی ماہرین ہی دے سکتے ہیں۔ یہ تب ممکن ہو سکے گا جب ہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آئیں گے اور سائیکٹرسٹ کے پاس جائیں گے۔

میں ابھی تک ہمت کے معاملے میں کمزور ہوں، کسی نفسیاتی مسائل کا حل بتانے سے گریزاں رہتا ہوں، کیوں کے سامنے والے ذہن کا مجھے علم نہیں ہوتا کہ وہ کس نیچر کا ہے۔ میرے مشورے سے اس پر کیا گذرتی ہے۔ میں نفسیات کا طالب علم تو نہیں ہوں پر نفسیات میرا پسندیدہ ٹاپک رہا ہے۔ نفسیات کے معاملات کو اکثر پاگلوں کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔ بہت سارے تعلیم یافتہ لوگ نفسیات کو سمجھنے سے گریزاں ہیں۔ حیدرآباد میں نفسیاتی ماہر سے میری اس ٹاپک پہ بات نکل پڑی، ڈاکٹر بتانے لگے کہ وہ ذاتی طور پر ایک شخص کو جانتے ہیں جن کو شوگر کا مرض لاحق ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا اس شخص کی شوگر کنٹرول میں نہیں رہتی۔ اس کو دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ نفسیاتی و اعصابی ماہر سے مشورہ کرے، مگر وہ شخص ضد لگا بیٹھا کہ وہ نفسیاتی ماہر ڈاکٹر کے پاس کبھی نہیں جائے گا۔ جب اس کی حالت پیچیدہ ہوگئی تو پھر زبردستی اس کے دوست و احباب اس شخص کو میرے پاس لے کر آئے۔ اس شخص نے ڈاکٹر کو آتے ہی کہا کے میں آپ کی تجویز کردہ دوا استعمال میں نہیں لائوں گا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ میرے آدھے گھنٹے کے سمجھانے سے اس شخص کے ذہن میں کچھ حد تک بات سمجھ میں بیٹھی۔ اس کو ایک یا دو ٹیبلیٹ تجویز کی، اب اس کی شوگر کنٹرول میں رہتی ہے۔ اب مجھے وہ تحائف بھی دینے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔

میرے اصرار پر نفسیاتی ماہر ڈاکٹر نے بتایا کہ ہمارے سسٹم میں یہ مسئلہ شروع سے رہا ہے کہ لوگوں میں شعور نہیں ہے۔ ڈاکٹر سے میں نے پوچھا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ سائیکٹرسٹ ڈاکٹر ٹرانکولائیزر ادویات دیتے ہیں تو ڈاکٹر چیلینج دیتے ہوئے کہنے لگے کہ اگر کوئی شخص ثابت کر دے کے نفسیات کے علاج معالجے میں سائیکٹرسٹ ڈاکٹر ٹرانکولائیزر ادویات دیتے ہیں تو وہ یہ ڈپارٹمنٹ ہی چھوڑ دینا پسند کریں گے۔

انسان جب نفسیات کے مرض کو سمجھ نہیں پاتا تو اس سے جاہل اور شاطر دماغ رکھنے والے فائدہ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے۔ حیدرآباد میں قائم گدو ہاسپیٹل پر آنے والے بہت سے ایسے بیمار لوگ دیکھنے میں آتے ہیں جنہوں نے گلے میں بہت سے تعاویزات پہنے ہوتے ہیں۔ اصل میں وہ جعلی پیروں سے لٹ چکے ہوتے ہیں۔ اس طرح کا ان کو بابا بنگالیوں کے پاس حل نظر آتا ہے۔ پھر ایسی خطرناک خبریں سننے کو ملتی جس سے نفسیاتی مریض جان بھی گنوا بیٹھتے ہیں۔

نفسیاتی مسائل نہایت اہم ہوتے ہیں جن کے لئے حکومت کو شعور پھلانے کی ضرورت ہے۔ جب لوگوں میں شعور آجائے تو نفساتی مسائل کو حل کرنے میں کوئی دشواری نہیں آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments