تقدیر کے کھیل اور نصیبوں کی بارش


کچھ الفاظ اور دعائیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں بظاہرکچھ خاص اہمیت کی حامل نہیں لگتی مگر دراصل اپنے اندر بہت گہرائی اور وسیع معنی رکھتی ہیں۔ تین الفاظ پر مشتمل ایک دعا جو اکثر ہم اپنے کسی عزیز کو اس کی نئی گاڑی یا مکان خریدتے وقت دیتے ہیں ’ اللہ نصیب کرے‘ اپنے اندر ایک زندگی کو سموئے ہوئے ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ الفاظ ساری زندگی کا نچوڑ ہیں۔ انسان زندگی میں بہت محنت کرتا ہے آگے بڑھنے کی لگن اور زندگی کو پر تعیش بنانے کی خواہش انسان کی فطرت ہے۔ اپنے اپنے حالات اور آمدن کے لحاظ سے انسان اپنی زند گی کو سہولتوں سے مزّین کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قبر کے گہرے گڑھے میں جا سوتا ہے۔ شاید جنّت سے نکالے گئے انسان کو جنّت کی خواہش ہی اسے یہی دنیا جنّت بنانے پر مجبور کرتی ہے۔

نفسیاتی اثرات کی وجہ سے وہ زندگی کو جنّت بنانے کی بھرپور کوشش کرتا ہے یا پھر آخرت کی جنّت کی خواہش اپنے دل میں لیے اس دنیا فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں اس کی محنت (کوشش) اور اس کا نصیب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ انسان کوشش کرکے سب کچھ اپنی مرضی کے مطابق بدلنا چاہتا ہے مگر نصیب اپنا اثر دکھاتا رہتا ہے۔ بعض مر تبہ سخت محنت کرنے والے کو کچھ نہیں ملتا اور نصیب والے سب کچھ حاصل کر لیتے ہیں۔

ایک شخص نے چار کنال پر مشتمل عالیشان گھر تعمیر کرایا، کروڑوں روپے خرچ کیے، کوئی بھی دیکھنے والا اس گھر کی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکتا تھا۔ سوسائٹی کا سب سے خوبصورت، جدید اور پر تعیش سہولتوں سے مزّین محل نما گھر جسے وہ اپنی جنّت خیال کر رہا تھا جب مکمل ہوا تو وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس گھر میں شفٹ ہو گیا۔ وہ شخص اپنے نئے گھر میں بہت خوش تھا مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ایک ہفتہ بعد اس کا انتقال ہو گیا اور وہ اب وہ اسی سوسائٹی کے قبرستان میں ابدی نیند سو رہا ہے۔ وہ سوسائٹی کے عالیشان گھر میں تو نہ رہ سکا مگراس کا نصیب اسے قبرستان لے گیا۔ اُس گھر میں اس کی فیملی اور ملازمین رہ رہے ہیں۔ ساری زندگی پیسہ پیسہ اکٹھا کیا، گاڑی لی، گھر بنایا مگر رہنا نصیب کی بات ہے۔ اس کا ڈرائیور اس کی قیمتی گاڑی چلاتا ہے اور اس گھر میں رہتا ہے اور شام کو پوش ایریا کی سوسائٹی میں چہل قدمی بھی کرتا ہے جو کہ شاید اس کا نصیب ہو گا۔

اس طرح سے کئی مثالیں میرے سامنے ہیں کہ انسان ساری زندگی محنت کرتا ہے، بچت کرتا ہے، اپنے ارمانوں کا گلا گھونٹتا ہے پھر کہیں آخری عمر میں جا کر کوئی گھر اور گاڑی خریدتا ہے مگر قسمت والوں کو یہ سب استعمال کرنا نصیب بھی ہو تا ہے۔ گھر میں ہزاروں روپے کا کھانا بنتا ہے مگر گھر کا مالک اس عمر میں اپنے بلڈ پریشراور شوگر کی وجہ سے پرہیزی کھانا کھاتا ہے۔ اس کے نصیب میں یہ بے مزا پرہیزی کھانا اور گھر کے ملازمین کے نصیب میں ذائقہ دار رنگ برنگے پکوان۔ ساری زندگی موٹر سائیکل یا مہران کار چلانے والا شخص جب آخری عمر میں ہنڈا سوک پرازمیٹک لیتا ہے تو اسے چلانے کے لیے ڈرائیور رکھ لیتا ہے کیونکہ عمر کے اس حصے میں اس سے گاڑی نہیں چلائی جا سکتی، اس کے نصیب میں مہران تھی اور ڈرائیور کے نصیب میں ہنڈا سوک پرازمیٹک۔

ایک شخص نے شادی کی مگر دس سال تک صاحبِ اولاد ہونے کا منتظر رہا، لیکن دوسری طرف کسی کو شادی کے پہلے برس ہی اولاد ِ نرینہ کی نعمت مل گئی۔ کسی نے بائیس سال کی عمر میں امریکہ سے گریجویشن کیا اور پانچ سال ایک اچھی ملازمت کے حصول میں دھکے کھاتا رہا، اور دوسری طرف ایک شخص ستائیس سال کی عمر میں مقامی سرکاری یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوا او ر سی ایس ایس پاس کر کے اعلی عہدے پر فائز ہو گیا۔ کوئی پچیس سال کی عمر میں کروڑ پتی اور اپنے بزنس کا مالک تو بن گیا مگر اس کی اولاد انتہائی نا اہل، نکمی اور ان پڑھ رہی اور دوسری طرف ایک شخص جس نے بچپن سے غربت اور محرومیاں دیکھیں مگر پچاس سال کی عمر اس کے بچے پڑھ لکھ کر سول اور ملٹری بیوروکریٹس بنے، اور کروڑ پتی افراد بھی اس کی قسمت پر رشک کرنے لگے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی نیت اور مسلسل جدوجہد سے اپنی معاشی حالت کو بدلتاہے۔ مگر قسمت اور تقدیرکا عنصر اِن سب پر غالب ہے۔

میں نہیں جانتا کہ آپ کا کیا یقین ہے مگر میر ے نزدیک یہ تقدیر کے کھیل ہیں اور نصیبوں کی بارش ہے۔ جو جس کے نصیب میں ہے اسے مل کر ہی رہتا ہے۔ نہ نصیب سے زیادہ اور نہ نصیب سے کم۔ نصیب سے لڑنا شاید انسان کے بس میں نہیں اس کے لیے تو صرف کوشش ٖ فرض کی گئی ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ’ انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے‘ انسان کا کام ہے صرف خلوصِ نیّت کے ساتھ کوشش کیے جانا آگے کیا ہو تا ہے نصیب جانے نصیب بنا نے والا جانے۔

نظر لکھنّو ی نے کیا خوب کہا تھا
بیکار ہیں قسمت کے شکوے بیکار یہ رونا دھونا ہے
منظور ہے جو کچھ قدرت کو واللہ وہی کچھ ہونا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).