نئی حکومت اور عوام کے ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے خواب


باپ بیٹا کہیں جارہے تھے گھوڑا ایک تھا تو باپ نے بیٹے کو اوپر بٹھا دیا اور خود لگام تھام لی تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تو ایک آبادی سے گزرنے لگے تو لوگوں نے بیٹے کو مخاطب کر کے کہنا شروع کر دیا کہ کوئی شرم ہوتی ہے باپ پیدل چل رہا ہے اور جوان بیٹا گھوڑے پہ بیٹھا ہے۔

یہ سن کر بیٹے کو بھی احساس ہو اور نیچے اتر آیا اور باپ کو گھوڑے پہ بٹھا دیا۔ آگے پھر ایک آبادی میں پہنچے تو دیکھتے ہی لوگ باپ سے مخاطب ہونے لگے کہ خود تو گھوڑے پہ بیٹھا ہے اور بیٹے کو نوکر بنایا ہوا ہے۔ یہ سُن کر باپ نے بیٹے کو بھی ساتھ بٹھا لیا تو آگے گئے پھر شہر آیا تو لوگ کہنے لگے توبہ توبہ گھوڑے پہ کتنا ظلم ہے ان کو کوئی احساس نہیں۔ آخر دونوں نیچے اتر گئے اور گھوڑے کی باگ پکڑ کر چل دیے۔ جب آگے پہنچے تو لوگ کہنے لگے کتنے بے وقوف ہیں خالی گھوڑا لا رہے ہیں اور خود پیدل چل رہے ہیں۔

لوگ یہی حال کرتے ہیں اور نئی گورنمنٹ کا یہی حال ہو رہا ہے۔ جب سے قادیانی مشیر کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور حکومت نے اپنا کمزور فیصلہ کرکے سوشل میڈیا کے ذریعے تبدیل کیا اس کے بعد تو اعتراضات شروع ہوگئے۔ نئی حکومت ہے بائیس کروڑ کی آبادی کا برباد ہوا پڑا گروہوں میں بٹا ہوا تباہ شدہ ملک ہے۔ حکومت کو ٹائم چاہیے ہوگا۔ اتنا جلدی تو ایک نئی نویلی بہو سسرال کے طور طریقے نہیں سمجھ سکتی جو لوگ حکومت سے چاہتے ہیں۔ آئی ایم ایف کے بغیر پانچ سالوں میں ملک کبھی نہیں ٹھیک ہو سکتا چاہیے کچھ بھی کر لیں۔ ہر ملک ڈیولپ کرنے کے آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی پڑتا ہے۔

ایک ایماندار حلال کھانے والا مڈل کلاس آدمی بھی اگر بیٹی کی شادی کرنی ہو تو قرض لئے بغیر نہیں کر سکتا۔ تو یہ ملک کیسے ٹھیک ہوگا اور یہ کوئی پہلی بار تو ہے نہیں ہم تو ویسے بھی کشکول اٹھانے میں مشہور ہیں۔ ہوسکتا ہے اس بار پیسا ایمانداری سے خرچ ہو اور ملک ٹھیک ہو جائے۔ اس لیے ہمیں حکومت کو ٹائم دینا چاہیے اور دیکھنا چاہیے ورنہ پانچ سال بعد تو پھر اپنے بچے تیار بیٹھے ہیں یعنی مریم، حمزہ اور بلاول۔ تو جہاں تیس سال صبر کیا وہاں پانچ سال زہر کا گھونٹ پی لیں اور صبر کر لیں۔

حکومت کو بھی چاہیے مضبوط فیصلے کرے یہ نہیں کہ سوشل میڈیا پہ چار بندے بیٹھ کر کہیں کہ غلط ہے تو حکومت فیصلہ ہی تبدیل کر دیتی ہے۔ اعتراض تو لوگ اٹھاتے ہیں اور خاص کر پاکستان تو وہ ملک ہے جہاں مولوی ہی ممتاز قادری کو جنت اور عاصمہ جہانگیر کو دوزخ کا پروانہ دے کر بیٹھے ہیں جبکہ اپنے انجام کا ہی نہیں پتا جو کام اللہ کے کرنے والے ہیں ہمارے مولوی کررہے ہیں۔

جب جہاز بنانے لگے تھے ہمارے مولویوں نے سپییکر پھاڑ دے تھے کہ جہاز اوپر سے گزرے گا تو مزاروں کی بے حرمتی ہوگی جب جہاز تیار ہو گیا اور پاکستان میں بھی چلنے لگا اور مولوی سیاست میں تشریف لے آئے تو اتنا اچھا لگا کہ کبھی اترے ہی نہیں۔ عوام صبر کریں پانچ سال ابھی گزر جائیں گے پرانے لوگ پھر لے آنا لیکن حکومت کو اچھے برے فیصلے کرنے دیں انسان غلط تجربے سے ہی سیکھتا ہے۔

اسد عمر کو فیصلے کر نے کا حق دینا چاہیے اور وہ بھی تنقید کی پرواہ کیے بغیر کام کریں جس جگہ لگا کہ میرا فیصلہ غلط تھا تو یورپ کے وزیروں کی طرح اپنی سیٹ سے خود ہی استعفی دے دیں لکین یہ سوشل میڈیا حکومت چلائیں گے تو خود بھی کنفیوز ہوں گے اور عوام بھی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).