جانتے ہو؟ فیری میڈوز تباہ ہو چکا ہے!


واہ کیا شاندار منظر ہے۔ زعفرین بولی

ارے نہیں یہ بھی کوئی منظر ہے ، آگے کہیں زیادہ خوبصور ت منظر ہے

ہم گلگت بلتستان سے واپس آ رہے تھے۔ رات کا وقت تھا اور کوہستان کے علاقے میں سفر کر رہے تھے۔ میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ میرے عقب میں ممتاز پینٹر اور مجسمہ ساز ثمینہ اور شعبہ تدریس سے تعلق رکھنے والی زعفرین میتھنیل بیٹھی تھیں۔ گاڑی میں خاموشی تھی۔ ثمینہ سے پچھلی سیٹ پر پروفیسر نعیم میتھنیل کے خراٹے گونج رہے تھے۔ سب تھکے ہوئے تھے لیکن یہ دو خواتین قبیلہ جنات سے تعلق رکھتی ہیں۔ میرے ساتھ انہوں نے کئی ٹور کیے ۔ شاید ہی کسی ٹور میں میں نے ان خواتین کو سوتے دیکھا ہو۔ رات کے وقت جہاں اور جس ہوٹل میں بھی قیام ہوتا ان خواتین کے قہقہے صبح چار بجے تک سنائی دیتے ۔ صبح آٹھ یا نو بجے روانگی کے وقت یہ ہشاش بشاش دکھائی دیتیں۔ مجال ہے آنکھوں میں نیند کا شائبہ بھی نظر آئے۔ گلگت بلتستان کے عشق میں فنا ہو جاتی ہیں۔

گاڑی میں خاموشی کو توڑتی زعفرین کی آواز گونجی۔۔وہ دیکھو وہ دیکھو ثمینہ کیا درخت ہے ؟

ثمینہ بولی رہنے دو ، یہ بھی کوئی درخت ہے اصل درخت تو آگے ہیں۔ بس دیکھتی جاﺅ۔

پھر ایک مشترکہ قہقہہ گونجا۔

میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھا ایسا احمق جو ابھی تک ان کی باتوں کی تہہ تک نہیں پہنچا تھا۔

اچانک زعفرین نے کہا ، وہ دیکھو وہ دیکھو ۔۔سڑک پر گوبر پڑا ہے۔

ثمینہ نے زعفرین کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا، کم آن زعفرین یہ بھی کوئی گوبر ہے ۔ اصل گوبر تو ابھی آنا ہے ۔ بس دیکھتی جاﺅ۔

اچانک میرے ذہن میں جھماکا ہوا اور بات کی تہہ تک پہنچتے ہی میں نے پیچھے دیکھا۔ ثمینہ اور زعفرین مجھے دیکھ کر ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھیں۔

بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جو لگاتار اور کافی عرصہ دہرانے کے بعد آپ کا حصہ بن جاتی ہیں۔ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ سیاحوں کے تجسس کو سلامت رکھنے کے لیے بولے جانے والے فقرے شخصیت کا کچھ یوں حصہ بن چکے ہیں کہ مجھے بولتے ہوئے تکرار کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔

سیاح بشام کے بعد کسی معمولی آبشار کو دیکھ کر حیرت زدہ ہیں تو میں کہتا ارے یہ تو کچھ بھی نہیں ہے اصل آبشاریں تو آگے آنی ہیں

۔۔ یا ارے یہ کیا بلند پہاڑ ہیں اصل بلند پہاڑ تو آگے آنے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

اس واقعہ کو یاد کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم گذشتہ قسط میں چلاس میں تھے اور اصل منظر تو چلاس کے بعد آتے ہیں۔

کبھی سوچتا ہوں کہ دیامر بھی تعلیم میں ترقی کر جائے اور گلگت بلتستان کے باقی اضلاع کی طرح رواداری کا شاہکار بن جائے تو کتنی دلچسپ صورتحال پیدا ہو جائے۔ بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کا جم غفیر دیامر کو ہی مسکن بنائے اور تانگیر، فیری میڈوز،نانگا پربت کے دیامر فیس، وادی داریل اور چلاس سے ہی نہ نکل پائے۔ صرف چلاس کے اندر پتھروں پر کندہ تصویری زبانوں کے شاہکاروں کی تعداد تیس ہزار سے تجاوز کرتی ہے۔اسی طرح تانگیر آثار قدیمہ کا علم اور دلچسپی رکھنے والوں کے لیے جنت ہے۔

چلاس سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر گونر فارم ہے ۔ گونر فارم ایک بڑی آبادی ہے ۔ اس آبادی کی خصوصیت یہ ہے کہ تمام مرد نقوش میں سگے بھائی نظر آتے ہیں۔ مجال ہے جو نین نقش میں زیادہ فرق ہو۔ گلگت سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیت رحمت نبی جو مستنصر حسین تارڑ اور دنیا کے عظیم ترین کوہ پیما میسنر کے دوست ہیں کا تعلق اسی گاﺅں سے ہے۔ فیری میڈوز میں خوبصورت لکڑی کے ہٹ بھی اسی خاندان کے ہیں۔ رحمت نبی ایک پڑھی لکھی اور بین الاقوامی شخصیت ہیں ۔ مجھے ایک دفعہ نانگا پربت کے بیس کیمپ پر لے گئے تھے۔ اسی ٹریک کے دوران انہوں نے بتایا تھا کہ لکڑی کے یہ ہٹ، ان درختوں کی لکڑی سے بنائے گئے ہیں جو درخت مر چکے ہو تے ہیں۔ فیری میڈوز تک جیپ کے لیے راستہ نہ بنانے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی تھی کہ نانگا پربت دنیاکا وہ واحد آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ ہے جس کے دامن میں پائن کا اتنا گھنا جنگل ہے۔ (آٹھ ہزار میٹر سے بلند چوٹیوں کی کل تعداد چودہ ہے جن میں پانچ پاکستان میں ہیں) ۔ دنیامیں تمام ایسی چوٹیوں کے ارد گرد گلیشرز اور برفانی چوٹیاں ہوتی ہیں ۔ جبکہ نانگا پربت کے ایک طرف دیوسائی کا دلکش میدان ہے تو دوسری جانب فیری میڈو ز میں اس قدر گھنا جنگل ہے ۔

 رحمت نبی نے کہا کہ میں کسی طور نہیں چاہتا کہ تتو سے فیری میڈوز تک جیپ کا راستہ بنے ۔ اگر یہ راستہ بن گیا تو جنگل کو بچانا ناممکن ہو جائے گا۔ لکڑی نیچے جانا شروع ہو جائے گی ۔

مجھے یا د ہے ایک دفعہ فیری میڈوز گیا تو نانگا پربت کو سر کرنے کی پچاسویں سالگرہ منائی جا رہی تھی۔ سالگرہ منانے والوں میں آسٹریا کے کچھ باشندے تھے جو ہرمن بوہل جس نے سب سے پہلے ڈرامائی انداز میں نانگا پربت کو سر کیا تھا کے رشتہ دار تھے۔ان کے علاوہ رحمت نبی تھے اور بس۔۔

آسٹریا کے یہ باشندے تتو گاﺅں میں زلزلہ پروف گھروں کی تعمیر اور سکول وغیرہ کے لیے رقم لائے تھے۔

انہوں نے یہ رقم آسٹریا کے اسکولوں میں بچوں سے چندہ جمع کر کے اکھٹی کی تھی (پاگل کہیں کے) ۔

نانگا پربت کو سر کرنے کی پچاسویں سالگرہ پر دنیا بھر میں خبریں دی گئیں۔اس خبر سے واقف نہیں تھا تو پاکستان کے سیاحتی ادارے اور میڈیا۔

رحمت نبی کافی عرصہ سے ریڑھ کی ہڈی میں تکلیف کے باعث صاحب فراش ہیں۔ فیری میڈوز تباہ ہو چکا ہے۔ میں آخری دفعہ گیا تھا تو کوڑے کرکٹ کے ڈھیر فیری میڈوز کے ٹریک پر پڑے تھے۔ جس طرح سیف الملوک کے بارے میں مستنصر حسین تارڑ نے کہا تھا کہ جھیل تماش بینوں میں گھری ایک طوائف بن چکی ہے کچھ یہی صورتحال فیری میڈوز کی بھی ہے۔ تارڑ صاحب رائے کوٹ کا پل عبور کرتے ہیں تو اپنے آپ کو فیری میڈوز کا مجرم محسوس کرتے ہیں ۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ فیری میڈوز کا راز افشا کر کے انہوں نے غلطی کی۔ لیکن شاید ان کے یہ محسوسات درست نہیں ہیں۔ فیری میڈوز 1890کی دہائی میں ایک جرمن نے دریافت کیا اور اس کو فیری میڈوز کا نام دیا۔ فیری میڈوز اگلے ایک سو برس تک بین الاقوامی سیاحوں کی آماجگاہ رہا۔ لیکن مجال ہے جو اس کے قدرتی حسن کو نقصان پہنچا ہو۔

پاکستان میں اکثریت کو فیری میڈوز سے روشناس کرانے والے یقیننا تارڑ صاحب ہیں لیکن میں تارڑ صاحب کے ان گنت قارئین سے واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ وہ قارئین فطرت کے حوالے سے کس قدر حساس ہیں ۔ میں نہیں سمجھتا کہ تارڑ صاحب کے لکھے سفرناموں کو پڑھ کر جانے والوں نے فیری میڈوز کا ستیا ناس کیا۔

ستیاناس کرنے کے پیچھے کچھ اور کہانیاں ہیں۔ سوشل میڈیا کے کرداراور حکومتی غفلتوں کی کہانیاں۔

میں رحمت نبی اور فیری میڈوز کی تصویروں کو جدا جدا نہیں دیکھ سکتا۔ شاید اسی لیے فیری میڈوز جا بھی نہیں سکتا۔ بھلا وہ کیسا فیری میڈوز جہاں رحمت نبی نہ ہو۔

وہ رحمت نبی جو مہمانوں میں تفریق کرنا جانتا ہی نہیں تھا۔ چاہے کوئی ارب پتی ہے یا بیک پیکر بھوکا سیاح ۔۔ایک دفعہ فیری میڈوز پہنچ جاتا تو رحمت نبی تفریق ختم کر دیتا تھا۔ رحمت نبی کو صرف ایک چڑ تھی اور وہ تھی پروٹوکول سے۔ پاکستانی اشرافیہ باز نہیں آتی تھی اور رحمت نبی خون کے آنسو روتا تھا۔ رحمت نبی ان گوروں کا میزبان تھا جو اپنے ملک میں جو بھی تیس مارخان تھے فیری میڈوز میں ایک عام آدمی کی طرح آتے تھے۔ پاکستانی اشرافیہ سے کئی دفعہ رحمت نبی کی منہ ماری بھی ہوتی تھی۔

ایک دفعہ ایک آئی جی پولیس کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے ایک تقریب فیری میڈوز میں رکھی گئی ۔ آئی جی صاحب تیس کے قریب باوردی پولیس والوں کے ساتھ فیری میڈوز آ دھمکے ۔ مزید کریہہ منظر یہ تھا کہ تیس جوانوں نے رائفلیں بھی ٹانگ رکھی تھیں۔ مجھے یاد ہے رحمت نبی اکھڑے اکھڑے تھے ۔ میں نے پوچھا سر کیا یہ یہاں قیام و طعام کے پیسے دیں گے۔ فرمانے لگے کوہستانی ہوا ہے یہاں پیسے نہیں دیں گے تو جائیں گے کہاں؟ لیکن میں لعنت بھیجتا ہوں ایسے پیسوں پر کہ جن کی وجہ سے بدیسی سیاحوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ بدیسی مہمان کوئی ایک دن کے مہمان نہیں ہیں یہاں اکثریت مہمانوں کی وہ ہے جن سے پچیس تیس برس سے دوستی ہے۔

رات کو میری آنکھ کھلی تو ہٹ کے باہر شدید برف باری شروع ہو چکی تھی ۔ درجہ حرارت منفی میں تھا۔ باہر پولیس کے کچھ لوگ برفباری میں بھی رضائیاں اوڑھے کھڑے تھے۔ یہ رضائیاں بھی ان کو رحمت نبی نے مہیا کی تھیں۔ رحمت نبی اور میری لاکھ منت سماجت کے باوجود وہ اندر آنے کو تیار نہیں تھے کہ پروٹوکول کا معاملہ تھا۔ رحمت نبی نے کہا دیکھو اس جاہل کے بچے آئی جی کو کہ اس کو یہ نہیں معلوم کہ فیری میڈوز میں سیکیورٹی کا کیا ایشو ہے۔ اور اگر کوئی یہاں اسے مارنا چاہے تو تیس سپاہی اس کو کیا بچا پائیں گے۔ مصیبت یہ ہے کہ اس بات کا اس کو یقیننا علم ہے لیکن باہر شدید سردی میں ٹھٹھرتے سپاہی اس کی بیمار انا کو تسکین دیتے ہیں۔

صبح میں بیدار ہوا ۔ باہر نکلا تو ایک عجیب ہی منظر تھا۔ آئی جی ایک چبوترے پر کھڑا ہے اور تیس سپاہی اس کو گارڈ آف آنر دینے کے لیے صف بندی کر رہے ہیں ۔

فیری میڈوز پر گارڈ آف آنر ۔۔لاحول ولا قوة

کچن میں گیا تو معلوم ہوا رحمت نبی گلگت چلے گئے ہیں ۔ میں سمجھ گیا کہ کس قدر کھولتے ہوئے گئے ہوں گے۔ رحمت نبی اب اس عمر کو آ پہنچے تھے کہ اس بیمار اشرافیہ سے جھگڑا کرنے سے اجتناب ہی کرتے تھے یا شاید اس ذہنیت سے مایوس ہو چکے تھے۔ فیری میڈوز کے حوالے سے ان کا ایک ہی خواب تھا۔ دنیا جہاں سے یہاں مہمان آئیں ۔ فطری حسن پر عش عش کریں ۔ برابری کی سطح پر رہیں۔ ایک دوسرے کا احترام کریں اور کوئی فالتو چیز کوڑے دان کے علاوہ کہیں نہ پھینکیں۔

آج رحمت نبی جیسا پاکستان سے محبت کرنے والا خوبصورت کردار کیا سوچتا ہو گا؟ ایک وجیہہ شخصیت کا مالک رحمت نبی کہ آسٹریلیا سے امریکہ تک کی خواتین اس کے پیچھے پاگل تھیں

دیامر کا پڑھا لکھا چہرہ جو ایک ایک درخت کے لیے اس قدر حساس تھا۔ ایک مشفق گائیڈ اور کوہ پیما کہ جس کا ذکر ہر قابل ذکر بین الاقوامی کوہ پیمائی کی کتابوں میں آتا ہے۔۔ وہ آج گلگت میں بستر پر ہے۔ اس کی جنت فیری میڈوز، کڑاھائیاں کھانے والوں۔۔ بھونپو بجانے والوں اور لڑکیوں پر آوازیں کسنے والوں کے ہاتھوں اجڑ چکی ہے ۔ وہ فیری میڈوز جو بین الاقوامی سروے گائیڈز میں پاکستان کی پہلے نمبر پر آنے والی منزل تھی جہاں دنیا بھر کا سیاح آنے کے خواب دیکھتا تھا، جہاں رات کے سناٹے دنیا پر گزرنے والے برفانی دور سے پہلے کے سناٹوں کی خبر دیتے تھے۔ جہاں نانگا پربت سے گرنے والے عظیم برفانی تودے خوفناک گڑگڑاہٹ پیدا کرتے تھے۔ جہاں کی دیومالائی داستانیں روح کو منور کرتی تھیں ۔ جہاں برف کے مینڈک اور برف کے سانپ تھے۔ جہاں کی عورتیں شوخ رنگ نہیں پہنتی تھیں کہ مبادا نانگا پربت کی کوئی پری حسد میں آکر کوئی نقصان ہی نہ پہنچا دے۔ جہاں دن کے دس بجے جب نانگا پربت کے دامن سے برف کے دھوئیں اٹھتے تھے تو مقامی خواتین بھی یہ کہہ کر روٹی پکانا شرو ع کرتی تھیں کہ نانگا پربت پر پریوں نے اپنے تندور تاپنا شرو ع کر دیے ہیں۔ سب خواب ہو گیا ہے۔

جنت کا رکھوالا بستر پر ہے اور فیری میڈوز تباہ ہو چکا ہے۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments