خود ساختہ ارسطو اور صحافی


خوش قسمتی سے ہم اپنے شہر کے کافی وٹس ایپ گروپس کے ممبر ہیں۔ آج بار بار موبائل کی ٹن ٹن بج رہی تھی ذرا غور کرنے پہ پتہ چلا کہ ایک گروپ میں این آر او کا موضوع زیر بحث ہے۔

گروپ کے آٹھ سے دس افراد اور سرگرم رکن بحث میں شامل تھے۔ لمبے لمبے دلائل دیے جا رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی اپنی ہانک رہا تھا۔ ہم سے بھی نہ رہا گیا۔ ہم بھی تو اسی قوم کے ارسطو اور دور حاضر کے افلاطون ہیں۔ انتہائی معذرت کے ساتھ ہم بیانی ہیں کہ اگر اشفاق احمد صاحب ہم سے پہلے دنیا میں آنکھ نہ کھول لیتے تو ان کی جگہ ہمارا نام زبان زدعام ہوتا اور خوش قسمتی سے خیال چوہدری ہونے پہ کوئی پابندی بھی نہیں ہے لہذا یہ ہماری احمقانہ سوچ ہے۔ جہاں تک دورِ حاضر کی بات ہے تو یہاں وزیروں مشیروں کے پتلے بنانا کارٹون بنانا گدھے اور بندر بنا کران کا تمسخر اڑانا بھی جرم تصور نہیں کیا جاتا ہم تو خود کو محض مرحوم اشفاق احمد صاحب بنانے کے خیالات میں ہمہ تن گوش ہیں۔

خیر ہم نے بھی ایک گرما گرم سوال داغا۔ ہم نے پوچھا دوستو میرے علم میں اضافے کے لے برائے مہربانی این آر او کا مطلب تو بتا دیں۔ تاکہ ہم بھی اس معلوماتی بحث کا حصہ بن سکیں۔ گروپ میں جہاں گرما گرمی چل رہی تھی ہر کوئی دوسرے پہ سبقت لے جانا چاہتا تھا ہر ممبر اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کی سر توڑ کوشش میں مصروف تھا اچانک خاموشی طاری ہوگئی جیسے مہذب قوموں میں کسی مرے ہوئے کو یاد کر کے دو چار منٹ کی خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ ہم بھی گروپ میں اپنا سوال پھینک کر موبائل ایک طرف رکھ کے کسی مسخرے کی طرح شرارتی ہنسی ہنستے رہے۔

آخر کوئی آٹھ سے دس منٹ بعد دوبارہ ہمارے موبائل کی گھنٹی نے ٹن ٹن کیا۔ ادھر ہم بھی اپنے سوال کے جواب کے انتظار میں تھے۔ جلدی جلدی میسج پڑھا ایک انتہائی معتبر گروپ ممبر نے گوگل سرچ کر کے اس کا سکرین شاٹ لے کر تھوڑا کروپ کر کے ہوبہو گروپ میں سینڈ کر دیا۔ شاید وہ ممبر صاحب نہیں جانتے تھے کہ ”نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے“ اس بات سے اندزہ لگایا جا سکتا ہے کہ بحث برائے بحث اور بحث برائے اصلاح میں کیا فرق ہے اور بہت سارے جیالے جاہل کیوں ہیں۔

اسی طرح ایک دفعہ ایک ہوٹل پہ معاشیات کاموضوع زیر بحث تھا۔ ہم بھی روٹیاں لینے وہاں جا دھمکے کیوں ہماری زوجہ محترمہ بھی کچھ کام چور ثابت ہوئی ہیں۔ سردیوں میں عام طور پہ اور گرمیوں میں خاص طور پہ دوپہر کو روٹی بنانا ہماری زوجہ محترمہ کے لیے صرف وبال جان ہی نہیں موت پڑنے کے مترادف ہے۔ انھیں اکثر ہماری افسری کا بھی خیال نہیں رہتا اور ہاتھ میں کوئی کپڑا یا روٹیوں والا رومال پکڑا کے تندور پہ روانہ کر دیتی ہیں۔ اپنی بیوی کے اس ظالمانہ فعل کو دیکھتے ہوئے ہمیں عمران خان کا پاکپتن دربار پہ جانا ہرگز معیوب نہیں لگا تھا۔

خیر جس طرح زرافہ زمین سے گھاس کھانے کے لیے گردن نیچے کرتا ہے منہ گھاس سے بھر نے کے بعد چغالی کرنے کے واسطے اوپر بالکل اسی طرح تندورچی روٹیاں لگانے اور نکالنے کے لیے کبھی نیچے اور کبھی اوپر آ جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ روٹیاں لگوانے آئی ارد گرد کھڑی محلے کی سادہ لوح عورتوں کو معاشیات پہ لیکچر دے رہا تھا۔ عورتیں بھی آٹے کے پیڑے بناتی ہوئی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہہ رہی تھیں ہاں پائی پتہ نئیں ہُن غریباں دا کی بنو! اور پاس ہی دھوئیں مکڑی کے جالوں سے اٹا ڈراؤنی بیوی جیسا پھٹے سپیکر والا ٹیلی ویژن چل رہا تھا جس پہ ڈالر اور روپے کی قمتوں کے اتار چڑھاؤ پہ تبصرہ کرتے سیاست دان اور صحافی الجھ رہے تھے۔

ہم نے ازراہ شرارت تندورچی سے پوچھا چاچا معاشیات کی ہوندی اے۔ تندورچی نے بہت معصومانہ انداز میں کہا پُتر ایہہ تے مینوں نئی پتہ پر ملک وچ معاشیات دا بُرا حال اے۔ اب ہم حیران تھے کہ جس بندے کو یہ نہیں معلوم کہ معاشیات کیا ہے اورشاید ایک تندورچی کو پتہ ہو بھی نہیں سکتا وہ بھی محلے کی عورتوں پہ اپنے علم و دانش کی دھاک بٹھائے ہوئے تھا۔ موجودہ صدی میں اس قدر جہالت کے پھلنے پھولنے کا سہرا اس طرح کے تندوری تبصرہ نگاروں اور وٹس ایپ گروپس کے تجزیہ کاروں کے سر جاتا ہے۔

۔ ہمارا تعلق پاکستان کے اس شہر سے ہے جہاں بیماریاں کم اور خودساختہ صحافی زیادہ ہیں۔ ایک دن ہم بیوی کا حکم بجا لانے خاطر گوشت مارکیٹ گوشت لینے گئے۔ ہمارے پہنچنے سے پہلے قصائی کی دکان پہ قصائی اور ایک پنٹ بابو گاہک کے درمیان کسی بات پہ جھگڑا شروع تھا۔ ہم بھی وہاں جا دھمکے۔ بے شک ہم گھر میں بیوی کے زیر عتاب غلام کی حیثئت سے زندگی گزار رہے ہیں لیکن معاشرے میں ہم اپنا ایک مقام اور پہچان رکھتے ہیں۔ قصائی ہماری بیرونی پوزیشن سے واقف تھا کیوں کہ ہم اس کے پرانے گاہک ہیں۔

ہمیں دیکھتے ہی قصائی بولا لو بابا جی آگئے۔ بابا جی یہ بندہ صبح صبح میری دکان پہ آکر بدمعاشی کر رہا ہے۔ میں نے جب بطور پولیس افسر اس بندے سے بات کرنے کی کوشش کی تو اس نے اپنا صحافتی کارڈ خوامخواہ نیوز مجھے دکھا دیا۔ جیسے انگریزی فلموں میں سی آئی اے والے مجرم کو پکڑنے سے پہلے تعارف کرواتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم کچھ کہتے قصائی نے بھی فاتحانہ لہجے سے کہا لو۔ یہ کارڈ تو میرے پاس بھی ہے اور جھٹکا نیوز کا اپنی تصویر لگی والا کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھما کر ہمیں ایک زور دار جھٹکا دیا۔

ہم حیران پریشان گُنگ کھڑے دونوں کے منہ دیکھتے رہ گئے۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ کیا سچ مچ یہ دونوں صحافی ہیں یا صحافت کے ساتھ گھناونا مذاق۔ اگر قصاب سبزی والے شادیوں پہ فلم بنانے والے جوئے کے اڈے چلانے والے۔ منشیات فروشوں جسم فروش عورتوں کی سرپرستی کرنے والوں کے پاس صحافتی کارڈ ہیں تو ذمہ دار کون ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آئے روز پولیس ان خود ساختہ صحافیوں کے خلاف کارروائی کرنے کی کوشش کرتی ہے اور پورے ملک سے اسی قسم کے صحافی سراپا احتجاج ہو کر پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کام نہیں کرنے دیتے اور امن عامہ میں خلل ڈالتے ہیں ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی کرنا بھی حقیقی صحافیوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ ہرگز صحافت نہیں۔ صحافی تو کسی بھی قوم کا حقیقی نمائندہ اور سفیر ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).