کیا میڈیا بینڈا ڈھولکی بن چکا ہے؟


\"imranکیا کسی خاتون کو ٹریکٹر ٹرالی کہا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب فی الحال چھوڑیں۔۔۔ ایک حقیقی کہانی کی طرف چلتے ہیں۔۔۔

بینڈا ڈھولکی۔۔۔ ہاں یہی نام تھا اس کا۔۔۔ اصل نام یاد نہیں۔۔۔

اسی کا عشرہ تھا۔ بینڈا ڈھولکی ہمارے محلے کا ایک بڑا ہی دلچسپ کردار تھا۔ پیدائشی طور پر وہ کچھ کج فہم واقع ہوا تھا۔ سکول وہ جا نہیں سکتا تھا اس لئے اس کی ماں اسے گھر سے باہر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے بھیج دیتی تھی وہ سارا سارا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ وہ دوسرے بچوں کو کھلونا سمجھ کر ان سے کھیلنے کی کوشش کرتا جبکہ بچے اسے کھلونا بنا لیتے تھے۔ کسی بھی ناپسندیدہ فرد کا نام بگاڑنا ہوتا تو بینڈا ڈھو لکی کو وہ نام یاد کروا کر اس سے با آواز بلند کہلوایا جاتا اور متاثرہ شخص اس کو جتنا برا بھلا کہتا یا مارتا بینڈا ڈھولکی اس کا نام اتنی ہی زیادہ شدت سے ادا کرتا اور ہم گاہے گاہے اس کی اس کیمیائی خاصیت کا خوب فائدہ اٹھاتے۔

کسی کا نام بگاڑنے کی خاصیت ہم پاکستانیوں میں کب پیدا ہوئی اس کا جواب تو گوگل نہیں دے سکتا لیکن شاید برصغیر پاک و ہند کی مٹی کی تاثیر میں ہی کوئی ایسا عنصر موجود ہے کہ ہم اپنے ہمسائے کی بیماری سے اتنی واقفیت رکھنا پسند نہیں کرتے جتنا اس کی بیوی یا بیٹی کی چال ڈھال اور سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ کسی کا مذاق اڑانے اور نام بگاڑنے میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔

اب ہم خواجہ آصف کی طرف چلتے ہیں۔ ادھر ٹریکٹر ٹرالی کا لفظ خواجہ آصف کے منہ سے ہوا کے دوش ہوا تو دوسری طرف تحریک انصاف کی پراپیگنڈا ٹیم نے اسی اخلاقیات کی سیڑھی پر قدم رنجا کرتے ہوئے ایک طرف یہ حکم جاری کیا کہ خواجہ آصف کو ایسا نہیں کہنا چاہیئے تھا اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر خواجہ آصف کی بیوی کو چند انتہائی نامناسب القاب سے نواز دیا۔ اس کیس میں کون حق کی مشعل تھامے ہے اور کون ناحق کی تلوار زنی کررہا ہے، سوال یہ نہیں بلکہ سوال تو یہ ہے کہ کیا آج ہی ہماری سیاست کا چلن شاہراہ غلاظت پر رواں دواں ہوا ہے؟

نہیں بالکل نہیں۔۔۔ یہ سب نیا نہیں۔۔سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو اپنی شرافت کی وجہ سے فاختہ قرار دیا گیا جن کی موت کے ساتھ ہی مسلم لیگ جونیجو بھی دفن ہوگئی۔

تھوڑی سی پی لیتا ہوں کے اقرار کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ شرابی کا لفظ ایسا لگا آج تک علیحدہ نہ ہو پایا۔ بہت سے آج بھی انھیں شرابی کہہ کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔

بے نظیر دور حکومت میں حافظ حسین احمد نے تقریر کرتے وزیر خزانہ سرتاج عزیز کو سرچارج کہہ کر پکارا تو بے نظیر نے ان کی تصحیح کی کہ یہ سرتاج عزیز ہیں تو حافظ حسین احمد نے کہا سرتاج ہوں گے تو آپ کے ہمارے لئے تو سرچارج عزیز ہیں تب سے لے کر آج تک یہ حرف امتیاز ان کی ذات کی پہچان بن گیا ہے۔

فوجی ہو یا سیاسی، ہر حکومت کی آنکھوں کا تارا بننے کی صلاحیت سے مالا مال مولوی فضل الرحمٰن کو مولانا ڈیزل کے نام سے جانا جاتا ہے۔

لاہور میں پرسرار سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر مخالفین نے پرویز مشرف کو شوقین اور رنگین مزاج کا ایسا پائیدار سابقہ عطا کیا جو وہ اپنی شخصیت سے کبھی الگ نہیں کر پائیں گے بالکل ویسے ہی جیسے جنرل یحییٰ کے ساتھ منسلک خاتون رانی سے جنرل رانی بن گئی۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز کو شارٹ کٹ عزیز کے نام سے آج بھی پکارا جاتا ہے۔

پرویز مشرف کے خلاف حرف انکار بلند کرنے پر چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ایک طرف دستار فضیلت عطا کی گئی تو دوسری طرف کچھ وجوہات کی بنا پر جنرل ضیا الحق کی مانند یک چشمی کا خطاب دیا گیا۔ یہ واحد خطاب ہے جو ان دونوں شخصیات کو اس طبعی خصوصیت کی بنا پر عطا گیا کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتے تھے۔

درست تھا یا غلط بہر حال سابق صدر آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا سکہ رائج الوقت کہا گیا۔ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف راجہ رینٹل کے نام سے مشہور ہیں اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو کاریگر کے نام سے نوازا گیا اور آج بھی اس کیمیائی خصوصیت کے طفیل عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور ہر دفعہ نہ جانے کس کامیابی کے حصول کی خوشی میں وکٹری کا نشان بناتے ہیں۔

کیمیائی خصوصیات کی بنا پر میاں برادران کو ڈینگی برادران اور شہباز شریف کو شوباز شریف کے نام سے ایسے پکارا جاتا ہےجیسے وہ کوئی سکول کا سبق ہوں اور دھرانے پر نمبر ملیں گے۔

دوبارہ آتے ہیں بینڈا دھولکی کی طرف۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ آج کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بالعموم جبکہ سوشل میڈیا بالخصوص بینڈا ڈھولکی بن چکے ہیں اور بلا امتیاز حکومت اور اپوزیشن کے حروف مغلظات کو وائرل انفیکشن کی طرح پھیلا رہے ہیں۔ الزامات لگانے کی ریس میں پہلے نمبر پر پاکستان تحریک انصاف ہے جو خود کو پاک دامن قرار دینے کی مہم پر رہتے ہوئے ہر پارٹی کے خلاف میڈیا کے بینڈا ڈھولکیوں کو استعمال کر رہی ہے۔ اور ان کی اپنی باری آتی ہے تو وہ چیخ پڑتے ہیں۔ شاید اسی لئے یہ جملہ کہا گیا تھا کہ ہمارا کتا کتا اور تمہارا کتا ٹومی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments