الجہادٹرسٹ بنام وفاق پاکستان


گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین اور گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنانے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنا فیصلہ سنا دیا۔ 1999 میں سنایا گیا یہ فیصلہ اس حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ کسی بھی اعلیٰ فورم نے شمالی علاقہ جات (2009 سے پہلے کا نام) کے حوالے سے کوئی فیصلہ سنادیا تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں یہ کیس الجہادٹرسٹ نامی تنظیم نے دائر کی تھی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کے چند ہی دنوں کے بعد وفاقی حکومت پرویز مشرف کے ہاتھوں غیر آئینی طریقے سے تبدیل ہوگئی جس کے بعد اس فیصلے پر فوری عملدرآمد کرانا سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ کی جانب سے مخاطب ذمہ داروں کے لئے مشکل ہوگیا۔

بعد ازاں اس فیصلے پر عملدرآمد کرانے سمیت دیگر اور کیسز بھی سپریم کورٹ میں داخل کرائے گئے۔ اس وقت سپریم کورٹ آف پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق، آئینی حیثیت کے تعین سمیت حدود اور دائرہ کار کے تعین کے لئے 30 سے زائد کیسز موجود ہیں جنہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے یکجا کرکے سماعت شروع کی ہے، ان کیسز میں قوم پرست رہنماءڈاکٹر غلام عباس(استور)، گلگت بلتستان بار کونسل، میر سلیم (ہنزہ) سمیت دیگر کے کیسز موجود ہیں۔ ان کیسز کی سماعت کے دوران جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے ریمارکس کے ذریعے یہ تاثر دیا ہے کہ 1999 کا فیصلہ اب بھی قابل عمل ہے اور اس وقت اٹھائے گئے سوالات آج بھی جواب طلب ہیں، وہی پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے تیزی سے سماعت کی ہے گزشتہ ایک مہینے میں اس کیس کی تین سماعتیں ہوچکی ہیں۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے الجہاد ٹرسٹ کی جانب سے دائرکردہ (1999) کیس کے فیصلہ میں جہاں اس بات کی نفی کی تھی کہ سپریم کورٹ گلگت بلتستان کے لئے با اختیار نظام کے لئے کسی بھی قسم کے سیٹ اپ کو مثالی قرار دیتے ہوئے تجویز نہیں کرسکتی ہے وہاں پر انسانی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے ٹھوس فیصلہ دیا تھا۔ اس فیصلے کے چند اہم نکات یہاں پر ذکرکیے جاتے ہیں،

سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’گلگت بلتستان(شمالی علاقہ جات) جغرافیائی لحاظ سے نہایت ہی حساس علاقہ ہے کیونکہ اس کی سرحدات بیک وقت چائینہ، انڈیا، تبت و دیگر علاقوں سے جا ملتی ہیں اور ماضی میں اس علاقے کو یکسر مختلف انداز میں ڈیل کیا گیا ہے، تاہم یہ عدالت اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتی ہے کہ کس قسم کا نظام حکومت دیا جانا چاہیے اور نہ ہی اس بات کا حکم دے سکتی ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے ایسا حکم ملک کے وسیع تر مفاد کے خلاف ہوسکتا ہے کیونکہ اس علاقے کا فیصلہ اقوام متحدہ کے زیر انتظام ہونا باقی ہے۔ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ اور ذمہ داران کریں گے، البتہ عدالت اس بات کا حکم دے سکتی ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو آئین میں متعین کردہ بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے انتظامی اور قانون سازی کے نمایاں اصلاحات متعارف کرائے جائیں۔

الجہاد ٹرسٹ کیس کے فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے انصاف تک رسائی اور عدلیہ کے حدود پر بھی احکامات جاری کیے اور کہا کہ ’آزاد عدلیہ کے ذریعے انصاف کے حصول کے لئے یہ بات دیکھی جائے کہ گلگت بلتستان میں چیف کورٹ موجود ہے، جو کہ ہائیکورٹ کے برابر ہے، بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے اس کے دائرہ اختیار کو بڑھایا جائے اور چیف کورٹ کے فیصلوں کے خلاف مزید اپیل کرنے کے لئے اعلیٰ عدالتی فورم فراہم کردیا جائے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس کیس میں بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لئے آئین میں ترمیم، نوٹیفکیشنز، آرڈرزاور رولز کے آپشنز کھلے رکھے اور حکم دیا کہ ’چھ مہینے کے اندر اندر انتظامی اور قانونی سطح پر اصلاحات متعارف کرائی جائیں تاکہ گلگت بلتستان کے لوگ بھی آئین پاکستان کے تحت بنیادی انسانی حقوق حاصل کرسکیں، اور اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے نظام حکومت کرسکےں، اور انصاف کے حصول کے لئے اعلیٰ عدلیہ تک رسائی حاصل ہوسکے۔

یہ کیس اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین پاکستان کے تحت بنیادی انسانی حقوق کو گلگت بلتستان کے لوگوں کا حق قرار دیدیا، اور اپنی منتخب نمائندگی کے ذریعے حکومت کرنے کا بھی حکم دیدیا، تاہم نظام حکومت کے بارے میں سپریم کورٹ نے گیند دوبارہ پارلیمنٹ کی جانب پھینک دی اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کے حوالے سے بھی فیصلہ نہیں کرسکی۔ اس فیصلے کی اہمیت اپنی جگہ پر عیاں ہے لیکن یہ فیصلہ میگناکارٹا کی حیثیت اختیار نہیں کرسکا ہے۔

اس فیصلے کو 19 سال ہوگئے ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوسکا لیکن رفتہ رفتہ اس پر چند ایک اقدامات کیے گئے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں اسمبلی اور سپیکر کا تصوربھی نہیں تھا، وفاقی حکومت نے چند ایک اقدامات کیے تھے کہ پرویز مشرف نے حکومت پر قبضہ کرلیا اور اپنے 8سالہ طویل دور میں صرف چند ایک امور پر ’تبدیلی‘ لے آئے جن میں قانون ساز اسمبلی، سپیکر اور دوسرے امور تھے۔

گلگت بلتستان چونکہ جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے یہاں پر ایک پل بھی حساس ہوتا ہے۔ اس وقت ملک کے اندرونی حالات بھی غیر یقینی قسم کے تھے، اور کبھی کسی منتخب حکومت نے اپنے پانچ سال پورے نہیں کیے تھے۔ ملک دہشتگردی کے چنگل میں پھنسا ہوا تھا جس سے نکلنا نہایت مشکل تھا۔ گلگت بلتستان میں بھی قابل ذکر یا اہم اصلاحات نہیں لائی گئی تھی۔ چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے، دیامر بھاشاڈیم کا وجود نہیں تھا۔

اب چونکہ پاکستان نے منتخب حکومتوں کی منتقلی دیکھنے کی مشق بھی شروع کر دی ہے، دہشتگردی جیسے موضوع کو ثانی بلکہ ذیلی موضوع کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، اور گلگت بلتستان نے بھی متعدد اصلاحات دیکھ لی ہیں جن میں دو آرڈرز، اور متعدد اصلاحات موجود ہیں۔ گلگت بلتستان کی جغرافیائی حیثیت ’سونے کی چڑیا‘ کی مانند ہے بشرط اس پر سنجیدگی اور نیک نیتی سے کام کیا جائے، چائینہ پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ اسی جغرافیائی حیثیت کا ایک تحفہ ہے، قدرتی صلاحیتوں سے بھرپور گلگت بلتستان نے ملک کے پانی اور بجلی کی ضرورت کو پوراکرنے کے لئے دیامر ڈیم کو بھی پیش کردیا ہے، اب حالات اور صورتحال 1999کے نسبت یکسر مختلف ہیں۔ لہٰذا امید کی جاسکتی ہے کہ بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے بہتر فیصلہ کیا جائے گا، اس وقت کیس عدالت میں زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ نے 7رکنی لارجربنچ تشکیل دے دیا ہے۔

ڈاکٹر غلام عباس صاحب جو کہ 30 سے زائد درخواستوں میں سے ایک درخواست گزار بھی ہیں، اور سیاسی حقوق کے لئے طویل جدوجہد کرتے رہے ہیں، اس بار انتہائی پر امید ہیں۔ ڈاکٹر عباس صاحب کہتے ہیں کہ ’ اس دفعہ سپریم کورٹ آف پاکستان نہایت سنجیدہ ہے اور امید واثق ہے کہ عوام گلگت بلتستان کے حق میں اچھا فیصلہ آجائے گا۔ ریاست پاکستان بھی جی بی میں جامع اصلاحات متعارف کرانے کے لئے متحرک ہیں، اگر کریڈٹ لینے کا معاملہ بیچ میں نہ آجائے تو سپریم کورٹ جلد از جلد فیصلہ سناسکتی ہے، اگر حکومت یہ کہے کہ سابقہ فیصلے کی روشنی میں ہم خود اصلاحات متعارف کرارہے ہیں تو کیس میں تھوڑی تاخیر ہو سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).