حکمرانوں کے لیے کرنے والے اہم ترین تین کام


عالمی شہرت یافتہ روسی مصنف لیو ٹالسٹائی نے ایک افسانہ ”تین سوال“ لکھا تھا جو بہت مشہور ہوا۔ اس افسانے میں بتایا گیا ہے کہ ایک بادشاہ کو ایک بار یہ خیال ذہن میں آ گیا کہ اگر اسے اپنے 3 سوالوں کے جواب معلوم ہو جائیں تو وہ کسی معاملے میں شکست نہیں کھا سکے گا اور اس کے اقتدار کو بہترین مان لیا جائے گا۔ اس کے تین سوال یہ تھے:۔

1):۔ کسی حکمران کے لئے ہر کام کے کرنے کا صحیح وقت کون سا ہے؟
2):۔ حکمران کے لئے سب سے اہم لوگ کون ہیں اور کون اس کی توجہ کا سب سے زیادہ حقدار ہے؟
3):۔ حکمران کے لئے کرنے کے لئے سب سے ضروری چیز کیا ہے؟

بادشاہ نے یہ اعلانِ عام کروا دیا کہ جو بھی ان سوالوں کے اطمینان بخش جواب دے پایا اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے گا۔ شہر، شہر اور قریہ قریہ سے صاحبِ علم بادشاہ کے پاس جوق در جوق آنے لگے مگر کوئی بھی بادشاہ کو مطمئن نہ کر سکا۔

پہلے سوال کا جواب کچھ لوگوں کے مطابق یہ تھا کہ کسی بھی کام کو صحیح وقت پر کرنے کے لئے بادشاہ کو اپنے دنوں، مہینوں اور سالوں کو ترتیب دینا چاہیے۔ اس پر سختی سے عمل کرنا چاہیے اور ہر کام کو ٹھیک وقت پر کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ یہ تھا کہ انسان کے لئے کسی بھی کام کے صحیح وقت کا تعین ناممکن امر ہے۔ بادشاہ کو ایک مشورہ یہ بھی دیا گیا کہ وہ دانش مند لوگوں کی ایک جماعت ترتیب دے اور ان کے مشورے پر عمل پیرا ہو۔ ایک گروہ کا مؤقف یہ بھی تھا کہ کچھ معاملات عجلت میں طے کرنے کے ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال میں کسی سے مشورے کا وقت نہیں ہوتا، اس لئے بادشاہ کو فوری طور پر ایک نجومی کی خدمات حاصل کرنی چاہیے جو قبل از وقت چیزوں کی پیشگوئی کر سکے۔

ان مشوروں کے ضمن میں ہماری حکومت کے پاس ہر وزارت کے لئے انصافی کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس کے یوتھ ایکٹی وسٹ سب سے آگے ہیں جو اپنا شیڈول بنائیں یا نہ بنائیں مگر باقی سب کا کیلنڈر الٹ پلٹ کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ نجومی اور روحانیت کے معاملہ میں بھی ہماری حکومت ضرورت سے بہت زیادہ خود کفیل یے

اسی طرح دوسرے سوال کے بھی کئی جواب سامنے آئے۔ کچھ کے خیال میں بادشاہ کے لئے انتظامیہ سب سے اہم ہوتی ہے۔ کچھ کے خیال میں مبلغ و معلم جبکہ کچھ کا اندازہ یہ تھا کہ جنگجو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔ ان مشوروں کے ضمن میں ہمارے وزیر اطلاعات پہلے ہی بیوروکریسی کو فرما چکے ہیں کہ انہیں ہماری ہدایات کے تحت کام کرنا ہوگا جبکہ وزیر اعظم صاحب بھی بیوروکریسی سے کئی دفعہ خطاب فرما کر اپنا ایجینڈہ واضح کر چکے ہیں۔ کہانی کے مطابق تو کچھ لوگوں کے نزدیک جنگجو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں مگر ہمارے معروضی حالات میں کچھ نہیں پورا ملک ہی یہ سمجھتا ہے کہ جنگجو سپاہی سب سے زیادہ اہم ہیں۔

بادشاہ کا آخری سوال کہ ”کرنے کو سب سے ضروری کیا چیز ہے؟ ” کچھ کا جواب تھا کہ سائینسی ترقی جبکہ کچھ کی ترجیح عبادت تھی۔ اس ضمن میں سائینسی ترقی کے بارے میں تو ہماری کوئی ترجیح ہے ہی نہیں اس لئے اس بارے زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے جبکہ عبادات کے معاملہ میں پوری قوم اپنی مرضی کی عبادات کماحقہ انجام دیتے ہوئے دکھائی دیتی ہے۔ ان عبادات کا عکس ہماری معاشی، معاشرتی اور سیاسی ”ترقی“ سے خوب واضح ہے

بادشاہ عقلمند تھا لہذا اس نے کسی بھی جواب سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ یہ سب جوابات دراصل حکومت چلانے کا عمومی طریقہ کار ہے جسے انگریزی میں standard operating procedure بھی کہا جاتا ہے اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ ان جوابات کی تلاش میں جنگل میں مقیم ایک درویش کے پاس جائے گا جو اپنی فہم و فراست کے لئے مشہور تھا۔ اس درویش کی گفتگو کا دائرہ سادہ لوح لوگوں تک محدود تھا اور وہ بہت آسان طریقہ سے مشکل سوالوں کے جوابات دے دیا کرتا تھا۔ بادشاہ نے عام لوگوں جیسا حلیہ بنایا اور اپنے محافظوں کو ایک مخصوص مقام پر چھوڑ کر اکیلا درویش کے ٹھکانے کی طرف روانہ ہو گیا۔

بادشاہ نے دور سے دیکھا تو درویش اپنے باغ کی مٹی نرم کر رہا تھا۔ بادشاہ جب درویش کے پاس پہنچا تو اس نے بہت خوشدلی سے بادشاہ سے ملاقات کی اور دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ درویش کمزور اور ضعیف تھا۔ جب وہ اپنا بیلچہ زمین پر مارتا تو تھوڑی مٹی اکھڑتی اور وہ زور سے ہانپنے لگتا۔ بادشاہ نے درویش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ سے اپنے تین سوالوں کے جواب معلوم کرنے آیا ہوں اور اپنے تینوں سوال درویش کے سامنے دہرائے۔ درویش نے بغور سننے کے بعد کوئی جواب نہ دیا اور دوبارہ مٹی نرم کرنے میں لگ گیا۔

بادشاہ نے درویش سے بیلچہ لیتے ہوئے کہا کہ لائیں، ”میں آپ کی مدد کر دیتا ہوں، آپ خود کو نڈھال کر رہے ہیں“۔ دو، تین کیاریاں تیار کرنے کے بعد بادشاہ نے کام سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنے سوالات دہرائے مگر درویش نے زمین سے اٹھتے ہوئے کہا کہ اب تم آرام کرو میں باقی کام کر لیتا ہوں۔ درویش کی بزرگی کا خیال کرتے ہوئے بادشاہ نے بیلچہ نہیں دیا اور بدستور کام میں لگا رہا۔ ایک آدھ گھنٹہ گزرا اور پھر سورج درختوں کے پیچھے ڈوبنے لگا۔ بادشاہ نے بیلچہ زمین پر رکھتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس میرے سوالوں کے جوابات نہیں ہیں تو میں لوٹ جاتا ہوں۔

”وہ دیکھو کوئی ہماری طرف بھاگتا ہوا آ رہا ہے“ درویش نے کہا۔ ”آؤ دیکھتے ہیں کہ کون ہے۔ “

بادشاہ نے مڑ کر دیکھا تو ایک باریش آدمی جنگل سے بھاگتا ہوا آ رہا تھا اور دونوں ہاتھوں سے پیٹ پکڑا ہوا تھا۔ اس کی انگلیاں خون سے لتھڑی ہوئیں تھیں۔ قریب پہنچتے ہی وہ بےہوش ہو کر گر گیا۔ وہ بالکل ساکت تھا اور کراہنے کی مدہم سی آواز آ رہی تھی۔

بادشاہ اور درویش نے آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پیٹ پر ایک گہرا زخم تھا۔ بادشاہ نے اس زخم کو ممکنہ حد تک صاف کر کے مرہم پٹی کردی۔ جب خون بہنا بند ہوا تو باریش آدمی نے ہوش میں آتے ہی پانی مانگا۔ بادشاہ اس کے پینے کے لئے تازہ پانی لے آیا۔ اس وقت تک سورج ڈوب گیا تھا اور فضا خوشگوار ہو گئی تھی۔ بادشاہ نے درویش کی مدد سے اس انجان شخص کو جھونپڑی میں بستر پر لٹا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں موند لیں۔

بادشاہ کام سے اتنا تھکا ہوا تھا کہ وہ بھی دوسرے بستر پر لیٹا اور لیٹتے ہی سو گیا۔ وہ گرمیوں کی مختصر رات میں پرسکون سوتا رہا۔ جب وہ بیدار ہوا تو وہ باریش زخمی آدمی اپنی روشن آنکھوں سے بادشاہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا اور بادشاہ کو بیدار دیکھ کر فوراً اپنی نحیف آواز میں معافی طلب کرنے لگا۔ بادشاہ نے کہا کہ ہم دونوں تو بالکل اجنبی ہیں اور تم کس وجہ سے معافی مانگ رہے ہو۔ اس زخمی نے جواب دیا کہ، ”تم مجھے نہیں جانتے مگر میں تمھیں جانتا ہوں۔ میں تمھارا دشمن ہوں اور یہاں جنگل میں اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ تم یہاں اکیلے ہو گے اور میں واپسی پر تمھیں قتل کردوں گا۔ جب پورا دن گزرنے پر بھی تم واپس نہیں آئے تو میں تمھیں تلاش کرتے ہوئے تمھارے محافظوں کے نرغے میں پھنس گیا اور انہوں نے مجھے گھیر کر حملہ کر دیا مگر پھر بھی میں زخمی حالت میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ اگر مجھے بروقت طبی امداد نہ ملتی تو میں مرجاتا۔ میں نے تمھارے قتل کا منصوبہ بنایا اور تم نے میری زندگی بچائی۔ جب تک زندہ رہوں گا تمھارا شکر گزار اور خدمت گزار رہوں گا۔ مجھے معاف کر دو۔ بادشاہ نے نہ صرف اسے معاف کر دیا بلکہ اس کی ضبط کی ہوئی جائیداد بھی واپس کر دی اور اپنے شاہی معالج کو اس کے علاج کی ذمہ داری سونپ دی۔

بادشاہ درویش کو دیکھنے باہر نکلا تو درویش اکڑوں بیٹھا کیاریوں میں بیج بو رہا تھا، بادشاہ نے آخری بار اپنے سوال دہرائے۔ درویش نے بیٹھے بیٹھے جواب دیا کہ تمھیں تمہارے جوابات مل چکے ہیں۔ بادشاہ نے حیرت سے استفسار کیا کہ کیسے۔ درویش نے کہا کہ کیا تم نے میری کمزوری پر رحم کھاتے ہوئے میرے لئے کیاریاں نہیں کھودیں بجائے اس کے کہ تم واپس جا کر قتل ہو جاتے اس لئے تمھارے لئے سب سے اہم وقت وہ تھا جب تم کیاریاں کھود رہے تھے اور سب سے اہم کام اس وقت اس زخمی آدمی کی دیکھ بھال تھی ورنہ وہ تم سے صلح کیے بغیر مر جاتا۔ اس لئے تمہارے لئے سب سے اہم آدمی وہی تھا۔ اور تم نے جو اس کے لئے کیا وہ سب سے اہم کام تھا۔

درویش نے کہا کہ، ”یاد رکھو، سب سے اہم وقت موجودہ لمحہِ ہے۔ یہ اس لئے اہم ہے کہ اس لمحے میں زمانہ اپنا مالک خود ہوتا ہے۔ سب سے اہم آدمی وہی ہے جو اس لمحہِ موجودہ میں آپ کے ساتھ موجود ہے اور سب سے اہم کام اس لمحہ میں موجود آدمی کے ساتھ بھلائی ہے اور یہی انسان کو دنیا میں بھیجنے کا واحد مقصد ہے“

پس تحریر نوٹ:۔
اس تحریر کی موجودہ حکومت کے لئے کسی قسم کی نصیحت مت سمجھا جائے کیونکہ اس کے لئے ہر وزارت میں انصافی ایکشن فورس کماحقہ طریقہ سے موجود ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).