شہباز شریف کی چمڑی اُتار دی جائے!


’خدمت کو عزت دو‘ کا بچہ! مصلحت کی اولاد! مفاہمت کاگماشتہ! پِٹ گیا کم بخت، چاروں شانے چت پڑا ہے، بس تڑپنے کا شوق تھا جس کو، اب بمشکل پڑا تڑپتا ہے، کرپشن کا گاما پہلوان، کاہلوں کا لندھور، ہمیں نہیں چاہیے ایسا خادمِ اعلیٰ، ہِشت اے انسان، اے انسان ہِشت! پنجاب سپیڈ پہ تین حرف، سپیڈ تو ایک نشے کا نام ہے، اور ویسے بھی جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔ نقشِ کُہن کو مٹانا عین انقلاب ہے اور انقلاب آ چکا ہے، تبدیلی نے گھونگٹ کھول دیا ہے، روشن جمالِ یار سے ہے انجمن تمام، بُزدار ہی تبدیلی ہے، بُزدار ہی انقلاب ہے، بُزدار ہی نیا پاکستان ہے۔ کون کوتاہ نظر کہتا ہے ’یہ وہ سحر تو نہیں‘ جب کہ ہر صاحبِ نظر کہہ رہا ہے ’میں تے بُزدار ہی لے ساں‘، یہ ہے تبدیلی کا نشان، جس کے اپنے گھر بجلی نہیں ہے اُس کا مقابلہ ایک ایسے شخص سے کرنا جس نے پانچ ہزار واٹ بجلی پیدا کی ہو ایک جہالت نہیں تو اور کیا ہے۔ (ویسے اس اصول کے تحت جس شخص کے گھر بجلی نہ ہو اُسے واپڈا کا چیئرمین لگایا جانا چاہیے، اور اسی منطق سے شوکت خانم ہسپتال کا سربراہ بھی کسی کینسر کے مریض کو ہونا چاہیے)

کس قدر کائیاں ہو گا وہ آدمی جو دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کرپشن کرتا رہا لیکن ایک ثبوت نہیں چھوڑا۔ ہر کرپٹ آدمی کی ملک سے باہر جائیداد ہوتی ہے، لیکن اس شخص کی ملک سے باہر کسی جائیداد کی تصویر و تفصیل آج تک سامنے نہیں آئی، حتیٰ کہ وہ ایجنسیاں جن کی صفتِ خلّاقی ایسے معاملات میں خوب جوش مارتی ہے، وہ بھی اس شخص سے ہار گئیں اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کا سُراغ لگانے میں ناکام رہیں۔ یہ آدمی اس قدر مکار ہے کہ لڑکپن سے آج تک کسی نے اسے پیسے خرچتے نہیں دیکھا، اس کے بڑے بھائی کی جوانی کی کئی تصاویر آپ نے دیکھی ہوں گی جن میں وہ عالی شان گاڑیوں کی سواری کر رہے ہیں، کبھی اس آدمی کی ایسی کوئی تصویر آپ کی نظر سے گزری ہے؟ کبھی اس شخص کی کلائی کی گھڑی آپ کی توجہ حاصل کر سکی؟ کھدر پوشی بھی ایک ڈھکوسلہ نہیں تو اور کیا ہے۔

اسے مکافاتِ عمل کہتے ہیں، اس آدمی نے جس طرح اپنے ساتھ کام کرنے والے افسروں کی زندگیاں تباہ کی ہیں، بالخصوص اِزدواجی زندگیاں، اُس کی مثال کوئی مہذب معاشرہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ تین چار گھنٹے کی نیند کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیف منسٹر سیکریٹیریٹ کا ہر افسر زومبی نظر آنے لگا تھا۔ یہ کام کرنے کا کون سا طریقہ ہے ؟ ازدواج سے چُہلیں کرنا تودرکنار، یہ افسران جب اپنے گھروں کو پہنچتے تو ان کے وہ عضلات بھی کام نہیں کرتے تھے جو مسکرانے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ایسے میں گھریلو ناچاقیاں بھی ہوئیں، طلاقیں بھی۔ مظلوموں کی آہ لگی ہے اس ظالم کو۔

ایسے ایذا پسند آدمی کا کوئی دوست نہیں ہوتا، آپ نے کبھی سنا ہے کہ فلاں فلاں اس آدمی کا دوست ہے؟ ہم نے تو نہیں سنا۔ بزرگ تو ایسے شخص کو انتہائی بدقسمت بتاتے ہیں جس کا کوئی یار نہ ہو، ایمانداری سے بتائیے کیا یہ نارمل لوگوں کی نشانی ہے؟ نارمل لوگوں کے دوست ہوتے ہیں، کوئی عون چودھری، کوئی زُلفی بخاری، کوئی موبی، کوئی یوسی۔ اور فرض کریں اگر اس شخص کا واقعی کوئی دوست ہے بھی توذرا سوچیے یہ کس قدر شاطرانسان ہے جس نے پچھلے تین عشروں میں کسی کو ان کے بارے ہوا ہی نہیں لگنے دی، نہ کسی کو وزیر بنایا نہ مشیر۔ ایسی رازداری، ایسی پردہ پوشی، دوست نہ ہوئے ستر ہو گیا۔

اور پھر یہ پردہ داری فقط دوستوں تک محدود نہیں تھی، بلکہ ہر سمت اس پردہ کی سرسراہٹ سنی جا سکتی تھی۔ پولیس کا محکمہ ہی دیکھ لیں۔ پرانا پاکستان تو پولیس کو سیاست میں ملوث کرنے کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا لیکن حرام ہے کبھی کوئی ڈی پی او پاک پتن جیسا قصہ منظرِعام پر آیا ہو۔ آخر کیوں؟ یہ ہو نہیں سکتا کہ اس کی موجودہ اور سابقہ بیگمات میں سے کسی نے کبھی کسی سرکش ڈی پی او کا تبادلہ نہ کروایا ہو لیکن میڈیا کو اس کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی گئی، وہ خبریں دفن کر دی گئیں، وہ غنچے بِن کِھلے مُرجھا گئے۔

اور خبر یہ بھی ہے کہ یہ آدمی ایک نفسیاتی عارضہ کا شکار ہے، جسے غالباً سٹاک ہوم سینڈروم کہتے ہیں۔ اندر کے لوگ بتاتے ہیں کہ اسے کوتوال سے محبت ہے، یہ صیاد کی زُلفِ گرہ گیر کا اسیر ہے، یہ شکاری کے غمزوں پہ ریجھا ہوا ہے۔ یعنی یہ حضرت اپنے قاتل سے عشق فرماتے ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے یہ نفسیاتی کیفیت نہیں تو اور کیا ہے؟

ایمان داری سے بتائیے آپ نے کبھی سگ باش، برادرِ خورد مباش کی ایسی موزوں تشریح دیکھی، سُنی؟ سب سے قیمتی زیورِ سگ ڈھٹائی مانا جاتا ہے، اور اس شخص کی ڈھٹائی تو دیو مالائی حدوں کو چُھو رہی ہے۔اسے اکتوبر  1999 سے سمجھایا جا رہا ہے، کبھی چابک رسید کر کے، کبھی پیار سے، کہ انسان بن جاﺅ، سیدھے رستے پر چل پڑو، بھٹکے ہوئے بھائی کا ساتھ چھوڑ دو، لیکن یہ ڈھیٹ وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔ حالانکہ دل سے سمجھتا ہے کہ یہ خطرناک رستہ ہے، آگ اور خون کا رستہ ہے، اس کی منزل ابتلا ہے، لیکن جہاں بڑے بھائی کی بات آ جائے یہ اپنے دل کی بھی نہیں مانتا۔ اس سے آخری بار سوال کیا گیا ’چارہ یا چابک ‘ اس کا جواب تھا ’چابک‘، کوتوال نے جاتے جاتے دروازے سے مُڑ کر پوچھا ’کیا چاہتے ہو، جنت یا جہنم‘ اس نے جواب ہی نہیں دیا۔ اس قدر ڈھٹائی، اس قدر ڈھٹائی، حد ہو گئی!

اس شخص کو سزا ملنی چاہیے، قرار واقعی سزا، اس شخص کو عبرت کا نمونہ بنا دیا جائے۔ قانون سب کے لئے برابر ہے، ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ملک میں پہلی بار طاقت ور کا احتساب ہو رہا ہے (خُدارا پھر مشرف کا ذکر نہ لے بیٹھیے گا) اور جو اجہل کہہ رہے ہیں کہ نہ ایک انچ حکومتی زمین دی گئی، نہ حکومت نے ایک روپیہ ادآئی کی، تو سزا کس بات پر؟ ان سے پوچھا جائے کہ کیا پھر ناکردہ گناہوں کی حسرت کی داد دی جائے؟ فرض کرو یہ آشیانہ اسکیم بن جاتی اور فرض کرو کہ حکومت کا اربوں کا نقصان ہو جاتا تو کون ذمہ دار تھا؟ اور قانونی پوزیشن بھی یہی ہے کہ فرض کرو بڑے بھائی کو وہ تنخواہ جو نہیں ملی فرض کرو اگر مل جاتی تو؟ ’فرض کرو‘ کی اس تکرار سے ابنِ اِنشا یاد آ گئے۔ آج اگرابنِ انشا حیات ہوتے تو نیب کے سربراہ کے عہدے کے لئے مضبوط ترین امیدوار ہوتے۔ فرماتے ہیں:

 فرض کرو ہم اہلِ وفا ہوں، فرض کرو دیوانے ہوں

فرض کرو یہ دونوں باتیں جھوٹی ہوں افسانے ہوں

فرض کرو یہ جی کی بپتا جی سے جوڑ سُنائی ہو

فرض کرو ابھی اور ہو اتنی، آدھی ہم نے سنائی ہو

فرض کرو، فرض کرو۔۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).