کیا سندھ میں موت کی وادی میں چیف جسٹس جائیں گے


تھر میں غذائی قلت سے مرنے والے بچوں کا کیس سنتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار سیکرٹری صحت سندھ پر شدید برہم ہوئے۔ فرمایا کہ اگر حالات درست نہ ہوئے تو میں وہاں خود آ جاوں گا اور بچوں کو مرنے سے بچاوں گا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تھر میں ہسپتال ہیں ڈاکٹر نہیں۔ وہاں جو ڈاکٹر لگائے جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو سزا یافتہ سمجھتے ہیں۔ اور اس کا انتقام بچوں سے لیتے ہیں۔

سیکرٹری صحت نے عدالت کو بریف کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں کی شرح اموات ماؤں میں غذائی قلت کا ہونا نوعمری کی شادیاں اور خاندانی منصوبہ بندی پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے مائیں غذائی قلت کاشکار ہیں۔ ان میں غذائی قلت دور کرنے اور ان کو خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے سمجھانے کے لئے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تعداد کم ہے۔ اس لئے جب تک ان عوامل پر قابو نہیں پایا جاتا شرح اموات کم نہیں ہوگی اور بچے یونہی مرتے رہیں گے۔

عدالت اس بیان پر مطمئن نہیں ہوئی اور تھر سے تعلق رکھنے والے ایم این اے رمیش کمار کو روسٹرم پر بلا لیا۔ رمیش کمار نے عدالت کو بتایا کہ تھر میں کرپشن بہت ہے۔ کوئلے کی وجہ سے زمینوں پر قبضے ہو رہے ہیں۔ منشیات فروشوں کا تھر میں راج ہے۔ تھرکول پلانٹ بند پڑا ہے۔ امداد کے لئے آئی گندم با اثر لوگ کھا جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔

تھر موت کا گھر۔ روزانہ بچوں کی اموات کی خبریں۔ معصوم بچے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی دنیا چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ان ماؤں کا کیا حال ہوتا ہو گا جو نو ماہ اس بچے کا بوجھ اٹھائے آس و امید لئے پھرتی ہیں۔ بچے کی معصوم کلکاری سننے کو بے چین ماں ایسا بچہ جنم دیتی ہے جو سانس بھی گن گن کر لے رہا ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ مزید ماں بلکہ اب پورے خاندان کا بوجھ بن کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کی باتوں میں زیادہ وزن محسوس کیا اور سیکرٹری صحت کی رپورٹ مسترد کر دی۔ آپ کے خیال میں شاید ڈاکٹر کی لاپرواہی ان اموات کا سبب بن رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے فرمایا تھر میں ہسپتال تو ہیں۔ ہسپتال میں مشینیں بھی ہیں۔ اوزار بھی ہیں پھر کیوں اموات ہو رہی ہیں۔ چیف صاحب نے اعلان فرمایا کہ میں تھر میں جاوں گا اور بچوں کو مرنے نہیں دوں گا۔

سیکرٹری صحت کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے آپ نے سوچا ہی نہ ہو گا کہ یہ رپورٹ آخر کسی ڈاکٹر نے سیکرٹری صحت کو بنا کر دی ہوگی۔ شرح اموات کی واحد وجہ ڈاکٹر تو نہیں ہو سکتے۔ جناب چیف جسٹس آپ کی انسانی ہمدردی اور تھر کے لوگوں کے لئے نیک جذبات قابل قدر ہیں لیکن یہ مسئلہ عدالتی نہیں نہ ہی اکیلی حکومت اس مسئلے کو آسانی سے حل کر سکتی ہے۔ یہ ایک سوشو اکنامک ٹریجڈی ہے جسے حل کرنے کے لئے ان عوامل پر غور کرنا ہو گا جو اس کا باعث بنتے ہیں۔

تھر میں غذائی قلت ایک مسئلہ ہے۔ روز گار کے مواقع نہیں ہیں۔ بے روزگاری کاعفرئیت منہ پھاڑے کھڑا ہے۔ عورت کو تیسرے درجے کی مخلوق سمجھا جاتا ہے۔ روٹی کازیادہ حصہ مرد کو ملتا ہے کہ وہ کما کر لایا ہوتا ہے۔ بچی کھچی خوراک ماں اپنے بچوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ وہ بھی زیادہ حصہ لڑکوں کو دیتی ہے۔ پھر لڑکیوں کی باری آتی ہے اور آخر میں ماں جو اکثر بھوکی ہی رہ جاتی ہے۔ یہ بھوکی ماں اپنی گود میں ننھے بچے کو دودھ بھی پلا رہی ہوتی ہے اور اسی دوران دوبارہ حاملہ ہو کر اپنی کوکھ میں ایک نئے بچے کو پالنا شروع کر دیتی ہے۔

خود غذائی قلت کا شکار خون کی کمی میں مبتلا اور طرح طرح کی بیماریوں کا شکار حاملہ کی کوکھ وقت سے پہلے ہی بچے کی پیدائیش کا سبب بن جاتی ہے۔ وقت سے پہلے پیدا ہونے والے پیدائشی غذائی قلت کا شکار یہ بچے اپنی پیدائش کے بعد اچھے سے سے اچھے ہسپتال میں اچھے سے اچھے ڈاکٹر کی موجودگی میں اچھی مشینوں کے باوجود کم ہی بچ پاتے ہیں۔ اچھی خوراک مل بھی جائے تو بار بار بغیر وقفے کے بچے پیدا کرنا بذات خود کمزور بچے پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بچیوں کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ سکول کھولنے اور مفت تعلیم کا انتظام کرنا ہوگا۔ کم عمری کی شادیاں روکنے کے لئے قانون سازی اور کونسل کمیٹیاں بنانی پڑیں گی۔ ماؤں کو تربئیت دینے کے لئے ہر گاؤں میں اسی علاقے کی پڑھی لکھی لڑکیوں کو لیڈی ہیلتھ ورکر کی تربئیت دے کر نوکری پر رکھنا پڑے گا۔

غذائی قلت کے علاوہ کچھ اور عوامل بھی ہیں جنہیں دورکیے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ماؤں اور بچوں کو ضروری حفاظتی ٹیکے لگنا ضروری ہوتے ہیں۔ یہ ٹیکے ان بیماریوں سے بچاتے ہیں جو اکثر بچوں کی موت کا باعث بنتے ہیں۔ تھر کی آبادی دور دراز پھیلی ہوئی ہے۔ یہ ٹیکے لگانے کے لیے تجربہ کار ٹیمیں جو دور دراز کو سفر کرکے ان علاقوں تک پہنچیں تو مقصد حاصل ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے بھی ہنرمند افراد بھرتی کرنے پڑیں گے۔ ایسے افراد جو انہی علاقوں سے تعلق رکھتے ہوں وہی یہ کام کرسکتے ہیں۔ اس کے لئے پیرا میڈیکل تربئتی سکول کھولنے پڑیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ پینے کے صاف پانی کا انتظام کرنا پڑے گا۔ تھر میں پھیلی دیگر امراض جیسے بچوں کا سہال، نمونیہ، ملیریا اور تپدق کو بھی قابو کرنا پڑے گا۔ اس مقصد کے لئےدور دراز کے علاقوں میں بھی شفاخانے اور مناسب طبی سہولیات مہیا کرنی پڑیں گی۔

تھر میں بچوں کی اموات روکنے کے وہ عوامل جو اس کا باعث بنتے ہیں زیر غور لانے اور ان کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام عوامل بروئے کار لانے کے لئے درکار وسائل ہمارے پاس یا موجود نہیں یا ہم صحت اور تعلیم پر خرچ نہیں کرنا چاہتے۔ ہماری ترجیحات بجلی سڑکیں پل گاڑیاں اور ایرپورٹ ہیں۔ تعلیم اور صحت نہ پچھلی حکومتوں کی ترجیحات رہی ہیں نہ موجودہ حکومت اس میں پر جوش دکھائی دیتی ہے۔ زبانی دعوے البتہ زور و شور سےکیے جارہے ہیں۔ عملی طور پر اگر جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت بجٹ میں صحت میں مختص حصہ دیکھ لیں۔ ان معاملات کے لئے صرف 469 ملین روپے مختص کیے گئے ہیں اگرچہ صحت کا بجٹ 13 ہزار ملین ہے جس کا بیشتر حصہ ہسپتالوں اور انتظامی معاملات کے لئے ر کھا گیا ہے۔

پاکستان اکنامک سروے کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق بجٹ میں صحت کا حصہ جی ڈی پی کا0.5 سے0.8℅ ہے۔ جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کے مطابق کم از کم 6℅ ہونا ضروری ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان صحت پر پر کیپیٹا 36.2 ڈالر خرچ کرتا ہے۔ جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائیزیشن کے مطابق یہ کم از کم 86 ڈالر ہونی چا ہئے۔

حکومت پاکستان آی ایم ایف اور ورلڈ بینک وغیرہ سے قرضے لے کر صحت اور تعلیم جیسے غیر منافع بخش کاموں پر پیسے خرچ نہیں کرسکتی۔ تو شرح اموات کم کیسے ہوگی۔ تھر کے بچے یونہی مرتے رہیں گے۔ جناب چیف جسٹس آپ نے قوم پر پہلے بہت احسان فرمائے ہیں۔ ہسپتال، پراؤیٹ سکول ’میڈیکل کالج اور بڑے مافیا کو کنٹرول کیا ہے۔ آپ نے پاکستان کے کئی دیرینہ مسائل جو ماضی کی حکومتیں نہیں کر پائں ایک دو سماعتوں میں ہی کر ڈالے ہیں۔ آپ نے ایک بڑے ڈیم کی بنیاد رکھ دی ہے۔ تھر کے بچوں کو مرنے سے بچانا ہے تو ان کے لئے بھی ایک فنڈ قائم کر دیں۔ قوم آپ کی آواز پر دوڑی چلی آئے گی۔ ورنہ حکومت کے بس کی بات نہیں۔ حکومت پر چھوڑا گیا تو تھر کے بچے یونہی مرتے رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).