فضائےصحن چمن۔ تجھ پہ رحم آتا ہے


اشفاق احمد صاحب نے اپنی کتاب زاویہ کے چھٹے باب میں اپنے اٹلی میں قیام کے دوران پیش آنے والے ایک واقعہ کا ذکر کیا۔ ماجرا کچھ یوں ہے کہ اشفاق احمد صاحب ایک یونیورسٹی میں پروفیسر تھے اور اس کے ساتھ وہ ایک مقامی ریڈیو اسٹیشن پر کام کرتے تھے۔ ایک روز ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر ان کو جرمانہ ہوا اور روزمرہ معمولات کی وجہ سے وہ اپنا جرمانہ ادا نہ کر سکے۔ اس پر ان کی عدالت میں طلبی ہوئی۔ جج صاحب نے اچھی خاصی بازپرس کی گئی۔ جب اشفاق صاحب نے اپنی مصروفیات کا ذکر کیا تو جج صاحب نے ان سے ان کے پیشے کے بارے میں دریافت کیا تو اشفاق احمد صاحب نے بتایا کہ وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔

یہ سننا تھا کہ جج صاحب اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور کہا کہ عدالت میں ایک استاد کھڑا ہے۔ عدالت میں موجود ہر شخص کھڑا ہو گیا۔ اشفاق صاحب کے لئے کرسی منگوائی گئی۔ ان کو پہلے بیٹھایا گیا اور پھر آپ وہاں پر موجود باقی لوگ بیٹھے۔ جج صاحب نے پہلے ندامت کا اظہار کیا کہ ان کی عدالت میں ایک استاد پیش ہوا اور پھر جرمانے کی رقم دوگنی کر دی گئی کیونکہ جج کے نزدیک قانون کا منبع اساتذۂ ہوتے ہیں اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ان قوانین کی پابندی کو یقینی بنائیں گے۔ جج صاحب نے دوبارو ندامت کا اظہار کیا اور اشفاق صاحب کے اپنی گاڑی میں بیٹھنے تک وہاں موجود تمام عدالتی عملہ ان کے احترام میں کھڑا رہا۔ اس سے اشفاق احمد صاحب نے ترقی یافتہ قوموں کی ترقی کا راز اخذ کیا۔

میں اشفاق احمد صاحب کی ذات یا تحریروں کا بڑا مداح نہیں ہو لیکن گذشتہ جمعہ میں نے پاکستان کی ایک عدالت میں قوم کی پسماندگی کی عملی تصویر دیکھی۔ واقعہ ہے لاہور کا، اور قصہ ہے نیب کا۔ ستر سالہ سابقہ وی سی پنجاب یونیورسٹی کو جامعہ کے سابقہ پانچ رجسٹرار سمیت گرفتار کیا گیا۔ ان پر ’ممکنہ‘ بدعنوانی کے ’الزامات‘ ہیں۔ ڈاکٹر مجاہد کامران پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام ہے اس کے علاوہ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی شریک حیات کو لاء کالج کا پرنسپل بنایا۔ جبکہ سابقہ اساتذہ(رجسٹرار) پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر مجاہد کی بد عنوانی میں مدد کی۔

جمعہ کے روز ان ستر اسی سالہ اساتذہ، جو کہ سہارے کے بغیر چل بھی نہیں سکتے، کو ہتھکڑیاں لگا کر احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔ بیس سالہ بدمعاش نیب نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ملک و قوم کی چالیس پچاس سال خدمت کرنے والے اساتذہ کو اپنے خاندان والوں سے ملاقات کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ کرپشن یا اختیارات کا ناجائز استعمال جرم ہے، لیکن کسی بھی جرم کے ثابت ہونے تک کوئی بھی ملزم بے قصور تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو باقی تمام شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔ اس کی کسی بھی قسم کی تضحیک یا کسی بھی قسم کا تشدد خود ایک جرم ہے۔

ہمارے ملک میں نیب کے لئے سب کچھ جائز ہے۔ کسی بھی شخص کو طلب کر کے ہتھکڑیاں لگا دی جاتی ہیں۔ میڈیا ٹرائل شروع کر دیا جاتا ہے۔ الزام ثابت ہونے سے پہلے ہی مجرموں کی طرح برتاؤ کیا جاتا ہے۔ نیب کی آج تک کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔ ایک غیر ملکی خاتون سیاح سے پی آئی اے کے جہاز پر کِکی چیلنج پر معافی منگوانے کے سوا حالیہ ماہ میں نیب نے صرف سپریم کورٹ اور باقی اعلیٰ عدالتوں میں اپنی خفگی کے سوا کچھ نہیں کیا۔

نیب کے اپنے ڈی جی لاہور پر جعلی ڈگری کا الزام ہے۔ بہت سارے افسران پر غیر قانونی طور پر بھرتی ہونے کا الزام ہے۔ یہ آج تک سابق وفاقی وزیر بابر اعوان صاحب کے خلاف ریفرینس دائر ہونے کے باوجود ان کو گرفتار نہیں کرسکی۔ پنجاب کے وزیر بلدیات علیم خان صاحب پر سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضے کے سنگین الزامات ہیں، مگر آج تک وہ آزاد گھوم رہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب بذات خود ہیلی کاپٹر کے ناجائز استعمال میں نامزد ہیں مگر آج تک اس پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پشاور میٹرو کا منصوبہ تیس ارب روپے سے بڑھ کر ستر ارب روپے تک پہنچ گیا، مگر نیب والے ’احتساب سب کے لئے ’ جیسے سنہری اصول کی بجائے ’احتساب تحریک انصاف کی مدد کے لئے ’ پرکار بند ہیں۔ جلد یا بدیر وہ پنجاب یونیورسٹی کے معاملات میں بھی سابقہ حکومت کا کوئی نہ کوئی تعلق نکال لیں گے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بزرگ اساتذہ کی اس قدر بھیانک تذلیل کی گئی۔

یہ معاملہ سیاسی کے علاوہ ہمارے عدالتی نظام پر بھی سنگین سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ہمارے یہاں صوفی محمد صاحب کے لئے عام معافی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ احسان اللہ احسان کی رہائی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ قانون کی غلط تشریح اور مذہب کا استعمال کرکے کئی دنوں تک ملکی دارالحکومت کا گھیراؤ کرنے والوں کو نقدی سے نوازا جاتا ہے۔ سرعام اپنی طاقت کے نشے میں چُوْر قتل کرنے والے بگڑے رئیس زادے شاہ رخ جتوئی کو معصوم قرار دیا جاتا ہے اس کے سنگین جرم کو ایک باہمی جھگڑے کا نام دیا جاتا ہے۔ راو انوار کی عدالت میں حاضری کے لئے شاہانہ انتظامات کیے جاتے ہیں۔ شہزادوں کی طرح چار سو سے زائد ممکنہ پولیس مقابلوں کے مجرم ایس پی کو پولیس کے کڑے پہرے میں عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ آیان علی کی عدالت طلبی کسی فیشن شو سے کم نہیں۔ بیرسٹر فہد قتل کیس میں اڈیالہ جیل میں قید مجرمان کو ہوشربا سہولیات مہیا کیا جاتی ہیں۔ خرم راحیل، مصطفی کانجو اور عبدالقادر گیلانی کیسز جیسے بھیانک جرائم التواءکا شکارکیے جاتے ہیں۔ وہیں سینکڑوں ہزاروں طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے والوں کو صرف ممکنہ بد عنوانی کے الزام پر اس قدر تذلیل، ہماری قومی پسماندگی کی انتہا ہے۔

گذشتہ جمعہ کو ہی بھارتی زیرِ انتظام مقبوضہ کشمیر میں ایک پی ایچ ڈی اسکالر کو شہید کر دیا گیا۔ منان وانی علی گڑھ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اسکالر تھے۔ وہ کافی عرصہ سے بھارتی ریاستی مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے تھے۔ کئی بار انہوں نے مختلف سوشل میڈیا سائٹس کے لئے مضامین بھی لکھے۔ اسی سال جنوری میں منان نے قلم کو چھوڑ کر بندوق اٹھائی۔ بھارتی ریاست کے مظالم نے پہلے ایک قابل شخص کو عسکریت پسندی کی راہ دکھائی اور پھر اس کو شہید کر دیا گیا۔ اس پر ایک کشمیری نے کہا کہ بھارتی ریاست ایک پی ایچ ڈی اسکالر کو مار کر کشمیری عوام کو کیا پیغام دے رہی ہے۔ جب کہ پاکستان کا ایک ریاستی ادارہ محض الزامات کی بنیاد پر پی ایچ ڈی اسکالرز کو ہتھکڑیاں لگا کر قوم کو کیا پیغام دے رہا ہے؟ شاید جالب نے اس موقع کے لئے ہی کہا تھا

ہر ایک شاخ پہ برق بتاں ہے رقص کناں
فضائے صحن چمن۔ تجھ پہ رحم آتا ہے
قدم قدم پہ یہاں پہ ضمیر بکتے ہیں
میرے عظیم وطن۔ تجھ پہ رحم آتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).