انڈیا: وزیر نے #MeToo کا الزام لگانے والی خاتون پر جوابی دعویٰ کر دیا


MJ Akbar

ایم جے اکبر کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں کیونکہ آئندہ سال انڈئا میں انتخابات آ رہے ہیں۔

انڈیا میں ایک وزیر نے ملک میں سرگرم #MeToo تحریک کے دوران اپنے پر الزام لگائے جانے کے بعد ایک خاتون صحافی کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کر دیا ہے۔

صحافی پریا رامانی کی جانب سے ایم جے اکبر کے خلاف الزام لگائے جانے کے بعد کچھ اور خواتین نے بھی ایم جے اکبر کے ہاتھوں مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات کے بارے میں بتایا ہے۔

ایم جے اکبر ایک اخبار کے سابق وزیر ہیں۔ اس سارے معاملے کے سامنے آنے کے باوجود وہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنا نائب وزیرِ خارجہ کا عہدہ نہیں چھوڑیں گے۔

ادھر پریا رامانی نے کہا ہے کہ وہ اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔

انھوں نے کہا کہ انھیں افسوس ہے کہ اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو جانچنے کے بجائے ایم جے اکبر انھیں خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

نائب وزیرِ خارجہ نے اپنے خلاف آواز اٹھانے والی دیگر خواتین کے خلاف بھی قانونی کارروائی کرنے کی دھماکی دی ہے۔

انڈیا کی #MeToo تحریک میں نامزد ہونے والے ایم جے اکبر سب سے نمایاں شخص ہیں۔

انھوں نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے اور انھیں بے بنیاد کہا ہے۔


انڈیا میں #MeToo#MeToo تحریک کا آغاز

عائشہ پریرہ، بی بی سی نیوز نئی دلی

کسی کا یہ توقع رکھنا کہ ایم جے اکبر معافی مانگیں گے یا استعفیٰ دیں گے، تو یہ بہت بڑی بھول ہے۔

ان کا جواب شدید غصہ تھا۔

ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنا مشکل ہے۔ پریا رامانی خود کہہ چکی ہیں کہ آخرکار کچھ ہوا نہیں تھا اور ددیگر الزامات کئی سالوں پرانے ہیں۔ آخر میں بات ان دونوں کے موقف کی آجائے گی۔

مگر بات یہ ہے کہ ایم جے اکبر کے ردِعمل سے دیگر ملزمان کا حوصلہ بڑھے گا۔

اداکار الوک ناتھ پر ایک خاتون ہدایتکار نے ریپ کا الزام لگایا ہے۔ انھوں نے بھی اپنے الزام لگانے والی خاتون کے خلاف ہتکِ عزت کا دعویٰ کیا ہے۔ امکان اسی بات کا ہے کہ باقی بھی یہی کریں۔

مگر کیا یہ سب اس تحریک کو روک پائیں گے جو انڈیا کی میڈیا اور انٹرٹینمنٹ کی صنعت میں شروع ہوگئی ہے۔

ایک طرف تو ممکن ہے کہ جو خواتین حوصلہ مند ہو چکی ہیں وہ اب رک جائیں گی یا دوسری اپنی شکایات واپس لینے پر مجبور ہو جائیں۔

اور اس کے علاوہ طویل عدالتی کارروائیوں کی وجہ خواتین کے لیے اور زیادہ مشکل ہوگا کہ وہ اس کو جاری رکھ سکیں۔


گذشتہ ہفتے پریا رامانی نے ایک ٹوئیٹ میں اپنا 2017 کا ایک مضمون جو انھوں نے ووگ کے لیے لکھا تھا، دوبارہ شیئر کیا۔ اس مضمون میں انھوں نے ایم جے اکبر کا نام نہیں لیا تھا تاہم 8 اکتوبر کو انھوں نے ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ یہ مضمون ایم جے اکبر کے بارے میں تھا۔

https://twitter.com/priyaramani/status/1049279608263245824

اس کے بعد سے اور خواتین نے بھی ایم جے اکبر پر ایسے ہی الزامات لگائے ہیں۔

وہ انڈیا کے بااثر ترین صحافیوں میں سے ایک رہے ہیں اور انگریزی اخبار دی ٹیلی گراف اور دی ایشین ایج کے مدیر رہے ہیں۔

ایم جے اکبر کا کہنا ہے کہ یہ الزامات سیاسی نوعیت کے ہیں کیونکہ آئندہ سال انڈئا میں انتخابات آ رہے ہیں۔

https://twitter.com/mjakbar/status/1051452381983068161

تاہم بہت سی خواتین نے ایم جے اکبر کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کی حمایت سوشل میڈئا پر کی ہے۔

https://twitter.com/SiddiquiMaha/status/1051438636460322816

https://twitter.com/sagarikaghose/status/1051439081027190785

https://twitter.com/sardesairajdeep/status/1051437720193683458


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32497 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp