وزارتِ تعلیم کو محبوب کے بارے میں تجویز


کچھ لوگوں میں پیدائشی طور پر ایک اچھے استاد کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ کچھ کو تدریس کے فن میں مہارت حاصل کرنی پڑتی ہے۔ تدریس ایک پیچیدہ عمل ہے جس کو جانچنا، سمجھنا اور اس میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ایک اچھا استاد ہونے کے لیے اس کا نصاب کے مقاصد کو سمجھنا ضروری ہے۔ نصاب کا مقصد طلباء کو ایسا علم، مہارت، اقدار اور رجحانات سکھانا ہیں جو انہیں زندگی میں کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔

کوئی بھی مضمون ہو اس کو پڑھانے کے لیے استاد کے کمرہ جماعت میں دخول سے قبل اس روز پڑھائے جانے والے سبق کی ”بابی منصوبہ بندی“ بہت اہم ہے۔
جب آپ اپنے طلباء کو ایک مخصوص مضمون پڑھانے کے لیے تیار ہیں اور آپ نے پہلے ہی اپنے سبق بارے اپنے نوٹس تیار کر رکھے ہیں تو تدریس کا عمل آپ کے لیے آسان ہو گا اور زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کر سکیں گے“۔

ہم نے چونکہ خود کو پیدائش طور پر اچھا استاد کبھی نہیں سمجھا اس لیے ہمیشہ کوشش رہی کہ جہاں جہاں سے بھی علم کی روشنی پھیلانے کے حوالے سے کوئی رہنمائی میسر آئے اس سے ضرور استفادہ کیا جائے۔

تو کہیں پڑھے ہوئے (درج بالا) نکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم نے ہمیشہ ان پر عمل پیرا ہونے کی حتی المقدور کوشش کی۔
اسی سلسلے میں بچوں کو پڑھانے کے ساتھ ساتھ ان کی نفسیات کو سمجھنے کی بھی ہمیشہ کوشش کی۔

جس میں ہم پر یہ بات واضح ہوئی کہ نویں دسویں جماعت کے طلباء جب نیا نیا بائیولوجی کو پڑھنا شروع کرتے ہیں تو یہ مضمون رٹّا باز طلباء کا تو کچھ نہیں بگاڑتا لیکن جو اس کو سمجھ کر پڑھتے ہیں (ان میں سے کئی) طلباء کے اندر بگاڑ کے قوی امکانات اُجاگر ہونے کا احتمال رہتا ہے۔

سائنس کو تو یوں بھی ہمارے دین دار شر کی علامت گردانتے ہیں اور آرٹ تو ہے خرافات۔ لیکن مجبوراً اپنی قومی زبان کا بھرم رکھنے کے لیے انتہائی محتاط انداز میں اور مذہبی تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے اردو ادب کے گنجِ گراں مایہ سے جو موتی چُن کر نویں دسویں کے نصاب کا حصہ بنائے گئے ہیں ہمارے خیال میں انہیں سمجھ کر پڑھنے والوں کے بگاڑ کا امکان بائیولوجی کو سمجھ کر پڑھنے والوں سے بھی زیادہ ہے۔

کیونکہ بائیولوجی کے مراحل تک پہنچنے کا تو اس عمر کے طلباء محض خواب ہی دیکھ سکتے جبکہ اردو ادب میں انہیں اس خواب کو سچ کرنے کے ابتدائی مراحل میں دخول کے لیے بہترین رہنمائی میسر آتی ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ نجی اداروں، اکیڈمیوں اور کوچنگ سینٹروں میں جہاں مخلوط تعلیم دی جاتی ہے وہاں سمجھ کر پڑھنے والے طلباء جب زنخداں کے معنی پوچھتے ہیں تو جواب ملنے پر زنخداں کا جائزہ لینے کے لئے پہلے اپنے چہرے ٹٹولتے ہیں، بعد ازاں جب ایک دوسرے کے چہروں پہ نظریں اٹھتی ہیں تو کئی دلوں کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں، گو کہ یہ جھنجھناہٹ قبل از وقت سہی لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔

اس سلسلے میں ہم طلباء کو مزید بہتر طور پر علم کے زیور سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے وزارتِ تعلیم کو ایک تجویز پیش کرنا چاہتے ہیں جو کہ نویں اور دسویں جماعت کی اردو کی کتابوں سے لیے گئے ان اشعار کے آخر میں درج ہے۔ پہلے شعر ملاحظہ ہوں بعد ازاں تجویز۔

اشعار

نازُکی اُن کے لَب کی کیا کہیے
پَنکھڑی اِک گُلاب کی سی ہے
مِیر اُن نِیم باز آنکھوں میں
ساری مَستی شَراب کی سی ہے
۔
رُخ و زُلف پر جان کھویا کِیا
اَندھیرے اُجالے میں رویا کِیا
ہمیشہ لِکھے وَصفِ دَندانِ یار
قَلَم اپنا موتی پَرویا کِیا
زنخداں سے آتشؔ مَحبَّت رہی
کُنوئیں میں مُجھے دِل ڈبویا کِیا
(نصاب نہم)

آج کیا بات ہے کہ پُھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے مِلتا ہے
سِلسلہ فِتنۂ قیامت کا
تیری خُوش قامتی سے مِلتا ہے
(نصاب دہم)

ہماری تجویز یہ ہے کہ درج بالا اشعار میں ”محبوب“ کے اوصاف حمیدہ جن میں اجالے اور اندھیرے سے مشابہہ رخ و زلفِ۔ شراب سے بڑھ کر ادھ کھلی آنکھوں کی مستی۔ گلابوں کی پتیوں سے زیادہ لبوں کی نازکی پھر ان پر پھولوں کے رنگوں سی ہنسی۔ اور موتیوں سے زیادہ چمکدار دندانِ یار۔ پھر زنخداں کا کنواں کہ جو دل کو ڈبوئے لیے جاتا ہے۔ اس پر قیامت خیز خوش قامتی کا ذکر موجود ہے۔ گو کہ اس سب سے بھی ”محبوب“ کی شبیہہ کافی حد تک مکمل ہو جاتی ہے لیکن پھر بھی ایک تشنگی سی ہے جو طلباء کو اضطراب میں مبتلا کرتی ہے جس سے پڑھائی سے ان کا جی اچاٹ ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔

تو بہت سوچ بچار کے بعد ہم نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ اگر نصاب میں جون ایلیا صاحب کی ”ناف پیالا“ والے چند اشعار نصاب میں شامل کر دیے جائیں تو نونہالانِ وطن کا محبوب باآسانی مکمل ہو سکتا ہے۔ یوں ان کے نازک ذہن کسی بھی قسم کے ابہام کا شکار ہونے سے بچائے جا سکتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک شکوہ بھی ہے کہ خواتین کے ساتھ یہاں بھی امتیازی سلوک کیا گیا۔ محبوب پر آخر ان کا بھی پورا پورا حق ہے تو ان کے ذوق کی تسکین کا بھی کچھ تو اہتمام ہونا ہی چاہیے تھا۔
جیسے حسیناؤں کے بانکپن اور طرحداری کا ذکر کیا گیا اس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ حسینائیں بھی لگ بھگ اسی سِنہ کی رہی ہوں گی جس سِنہ کے اس کلام کو پڑھنے والے ہیں( یوں بھی اگلے وقتوں کے شاعروں کا محبوب اور فلموں کی ہیروئن کم ہی پندرہ سولہ ٹاپتے تھے)۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طالبات کے لئے بھی کوئی محبوب کی بھیگی مسوں کا ذکر ہوتا، اس کی بھاری ہوتی ہوئی آواز پہ بات کی جاتی(مگر یہ ہو نہ سکا۔ )۔
خیر اس امتیازی سلوک کا ازالہ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تبدیلی درکار ہے۔ حکومت چونکہ ابھی نئی نئی ہے اس لیے ہم اس کے کندھوں پر مزید بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے اس لیے اس موضوع پر مزید بات کرنے اور اس طرف توجہ دینے کے مطالبے کو کسی اچھے وقت تک ملتویکیے دیتے ہیں۔ ابھی کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

نیلم ملک
Latest posts by نیلم ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).