کیا سید جمال الدین افغانی ، افغانی نہیں تھے ؟


ایک معاصر ویب سائیٹ پر شائع ہونے والے مضمون میں دعوی کیا گیا ہے کہ سید جمال الدین افغانی اپنے اصل ونسب اور جائے پیدایش کے اعتبار سے ایرانی تھے نہ کہ افغانی۔

اس موضوع کے حوالے سے اپنے گزارشات پیش کرنے سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ خادم دوستوں کی مجلس میں ازراہ تفنن کہا کرتا ہے کہ اس خطے میں عربوں کی جانب سے اسامہ بن لادن کی ورود دراصل ہمارے خطے سے عربوں میں جمال الدین افغانی کی نزول کا انتقام اور انہی کی بازگشت ہے۔ اور اگر عرب دنیا میں سید جمال الدین افغانی کی فکری لہر ان کے لیے خیر اور سعادت کا سرچشمہ ثابت ہواتھا تو اسامہ بن لادن کی یہاں آمد کو اس احسان کا بدلہ سمجھناچاہیے۔

کسی مفکر کی فکر کو اس کے ظاہری متن کی بجائے اس فکر سے پیدا ہونے والے اثرات اور ذہنیتوں کی بنیاد پر جانچنا چاہیے۔ اس معیار کے مطابق یہ مسلمانوں کی ترقی اور وحدت کے داعی جمال الدین افغانی کی ہی فکر تھی جو 30 اپریل 1896 کے دن ایران میں مغربی ترقی وٹیکنالوجی کی بنیاد رکھنے کے حامی ناصر الدین شاہ قاچار، شاہ عبدالعظیم کے مزار میں افغانی کے ایک پیروکار رضا کرمانی کے ہاتھوں قتل ہوگیے اور اس واقعے کے تقریبا سوسال بعد یہ افغانی کی ہی فکر تھی جس سے مغلوب ہوکر خالد اسلامبولی نے 6 اکتوبر 1981 کو قاہرہ میں فوجی پریڈ کے دوران انورسادات کو قتل کردیاتھا۔ جمال الدین افغانی کی فکر وتعلیمات سے جو بیانیہ برآمد ہوا وہ آج بھی ستم زدہ مسلم ممالک کے خلاف استعماری طاقتوں کی اوزار ہے۔

جمال الدین افغانی اور سرسید احمدخان کا مناقشہ، جوکہ متذکرہ بالا مضمون کا اصل موضوع ہے اس حوالے سے بھی ہم اس تحریر میں لاتعلق رہتے ہیں۔ لیکن جمال الدین افغانی کی جنم بھومی سے متعلق جو بات متذکرہ مضمون میں پیش کی گئی ہے یہ ایک نیا دعوی نہیں ہے بلکہ پہلے سے موجود ایک ایسے دعوے کا اعادہ کیاگیا ہے جو بدیہی طور پر بے اصل ہے۔ 1984 میں مصر میں جمال الدین افغانی کے حیات وکردار پر ” الجوھر الفرد ” کے نام سے ایک ڈرامہ سیریل بنایا گیا تھا جس میں مقبول عرب آداکار محمودیسین نے افغانی کاکردار آدا کیا تھا، تیس قسطوں پر محیط اس سیریل کا آغاز میں ہی سید جمال الدین سے یہ سوال کیاجاتا ہے کہ کیا وہ ایرانی ہے اور جواب ملتا ہے کہ نہیں، میں افغانی ہوں۔ ناول، ڈرامے اور فلم کی سکرپٹ مستند تاریخی حوالوں کی حیثیت نہیں رکھتے جن سے کوئی ثابت یا رد کی جا سکے۔ بتانا صرف یہ مقصود ہے کہ ایرانی پروپیگنڈہ اتنا جاندار اور موثر رہا ہے کہ ایک شخصیت جس کے نام کا لاحقہ ہی ” افغانی ” ہے، اس کے بارے میں مستقل طور پر یہ سوال کھڑا کردیا گیا ہے کہ کیا وہ افغانی تھے یانہیں۔

اھل فارس کا یہ عجیب وطیرہ ہے کہ وہ گا ہے ایک دور کی نسبت کو پکڑ کر شخصیات، واقعات اور یہاں تک کہ زمینوں پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں۔ ایک شخص اگر افغانستان کے شہر ہرات میں پیدا ہوا ہو تو ایرانی قلم کار اسے افغانی کہنے کے بجائے یہ کہیں گے کہ اس کا تعلق ایران کے سابق صوبے خراسان کے شہر ہرات سے ہے لیکن جب وہ اصفہان میں پیدا ہونے والے کسی ایرانی شخصیت کا تعارف لکھیں گے تو یہ نہیں لکھیں گے کہ یہ شخص افغانستان کے سابق مفتوحہ علاقے اصفہان سے تعلق رکھتا ہے بلکہ اسے ایرانی ہی کہیں گے۔

محولہ بالا مضمون کے فاضل لکھنے والے نے سید افغانی کی ایرانیت کی دعوے کو امریکن خاتون مشرق شناس Nikki Keddie کے حوالے سے آگے بڑھایا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ مغربی محققین کی چونکہ ہمارے خطے کی معاملات کی ایک یادوسرے رخ کے تردید اور تصدیق کے ساتھ جذباتی وابستگی نہیں ہوتی اس بناء پر ان کی رائے میں زیادہ معروضیت پایا جاتا ہے لیکن یہاں کے ساتھ ان کا یہ عدم تعلق بعض اوقات فاش غلطیوں کاسبب بھی بن جاتا ہے مثلا 1896 میں سید جمال الدین افغانی کے ایک پیروکار کے ہاتھوں ناصر شاہ قاچار کی قتل کے بارے میں معروف مستشرق لویس ماسنیون نے لکھا ہے کہ اس دن قاتل شاہ عبدالعظیم کو قتل کرناچاہتے تھے اور غلطی سے ناصرالدین قتل ہو گیے جبکہ اس واقعے کے وقت شاہ عبدالعظیم کو فوت ہوے گیارہ سو سال کاعرصہ بیت چکا تھا اور لویس کویہ غلط فہمی محض اس وجہ سے ہوگئی کہ ناصرالدین کی قتل کا واقعہ شاہ عبدالعظیم کے مزار پر پیش آیا تھا۔

جمال الدین افغانی کی افغانیت کو مشکوک بنانے کی قضیے کا آغاز اس سے ہوا ہے کہ ایران میں جمال الدین افغانی کو جمال الدین اسد آبادی لکھا جاتا ہے۔ اسد آباد کے نام سے ایک شہر ایران کے صوبہ ہمدان میں واقع ہے اور اسی نام سے دوسرا شہر افغانستان کے صوبہ کنڑ میں واقع ہے۔ اس تفصیل میں جائے بغیر کہ کنڑ کی اسدآباد میں جمال الدین افغانی کے سادات خاندان ماضی کے کونسے آثار اور حال کے کونسے شواہد موجودہیں، اس حوالے سے اتنا کہناہی کافی ہے کہ جمال الدین افغانی نے اپنی کسی تقریر وتحریر میں کبھی بھی اپنے آپ کو اسدآبادی کے لقب سے موسوم نہیں کیا ہے جبکہ اپنے نام کے ساتھ افغانی وہ عموما لکھتے رہے ہیں۔

ایران کے جو محققین انہیں اسدآبادی اور پھر اسی سبب سے ایرانی کہتے ہیں وہ یہ وضاحت کبھی نہیں کرتے کہ وہ جمال الدین افغانی کو جمال الدین اسدآبادی کس ریفرنس کے ساتھ کہہ ر ہے ہیں اور یہ کہ جب سید جمال الدین نے اپنے نام کے ساتھ بے شمار دفعہ افغانی لکھا ہے تو پھر وہ ایرانی ہوتے ہویے بھی اپنے نام کے ساتھ افغانی کیونکر لکھتے تھے۔

کسی شخصیت کی ذاتی کوائف سے متعلق سب سے معتبر حوالہ خود اس کا ذاتی قول ہوتا ہے۔ 1838 میں قائم ہونے والے مطبعہ بولاق مصر ( جوکہ مسلمانوں کا سب سے پہلا چھاپہ خانہ تھا ) نے الحاوی للمسائل النفائس کے عنوان سے اسناد ودستاویزات شائع کی تھی اس کتاب میں جمال الدین افغانی کی ذاتی خط سے لکھے ہویے الفاظ کا عکس موجود ہے کہ انہوں نے اپنے ایک مکتوب کے آخر میں لکھا ہے ” من سکنہ کابل من اھالی افغانستان السید جمال الدین من سادات کنر ”۔

برہان الدین بلخی جو کہ جمال الدین افغانی کے ذاتی شاگرد اور خدمت گارتھے، 1926 میں استنبول سے شائع ہونے والے ” ملت ” جریدے میں لکھتے ہیں کہ ان دنوں میں ایسی باتیں سنتاہوں کہ حضرت استاد کو کچھ لوگ ایرانی ثابت کرر ہے ہیں اس بناء پر میں ضروری سمجھتاہوں کہ حضرت استاد کے ایسے قول کا ذکر کروں جو میں نے ذاتی طور پر ان سے سنا ہے۔ حضرت استاد نے مجھے بتایا کہ کہ میرا تعلق کنڑ کے مشہور سادات خاندان سے ہے، اتفاق یہ گیا کہ بابی فرقہ کا ایک بزرگ شیخ جمال الدین نے بھی ان علاقوں میں سکونت اختیار کی ہے جن علاقوں میں میں رہاہوں، اس وجہ مجھے لوگوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر ایران سے منسوب کیا ہے ( آثار جمال الدین افغانی، قاضی محمد عبدالغفار طبع دہلی 1940 )

ان دلائل وقرائن کے علاوہ سید جمال الدین افغانی جن ممالک میں اپنے تحریکی اور دعوتی عمل کے لیے مقیم ر ہے ہیں ان میں سے ہر ملک سے برطانیہ، فرانس اور اس زمانے کے دوسرے حاوی قوتوں کی سفارت خانوں نے اپنی حکومتوں کو مختلف اوقات میں جوسیکریٹ رپورٹس ارسال کی تھی ان کا ایک بڑا حصہ اب شائع ہوچکا ہے اور بارہا انہیں افغان باشندہ لکھا گیا ہے، تاہم اس سلسلے کی سب سے مضبوط دلیل یہ ہے کہ سید جمال الدین کی وفات 9 مارچ 1897 کو استنبول میں ہو گئی تھی لیکن 1944 میں افغان حکومت نے ترکی سے رابطہ کرکے ان سے مطالبہ کیا کہ جمال الدین افغانی کی جسد کے باقیات قبر سے نکال کر افغانستان کے سپرد کردیے جائیں تاکہ افغان حکومت ان کے شایان شان تکریم کرسکے ترک حکومت نے افغانستان کی اس درخواست کو پذیرائی بخشی اور یوں 15دسمبر 1944 کو ان کے باقیات استنبول سے کابل منتقل کردیے گیے۔ ان باقیات کو کابل پوھنتون ( یونیورسٹی ) کے احاطے میں دفنا دیا گیا اور سید جمال الدین کی یاد میں کابل یونیورسٹی میں دارالفنون کی فیکلٹی قائم کی گئی۔

اب سوال پوچھنا چاہیے کہ مبینہ طور پر ایک ایرانی الاصل شخصیت کی موت کے پچاس سال بعد ان کی جسد کے باقیات کواپنے ملک منتقل کرنے میں افغانستان کو کیا دلچسپی تھی، ترک حکومت کو ان کے جسد کو افغانستان منتقل کرنے کی افغان حکومت کی مطالبے کو شرف پذیرائی بخشنے کی کیا مجبوری تھی اور پھر اس جسد کا ” اصل وارث ” ایران اس سلسلہ جنبانی میں خاموش تماشائی کیوں بن کر بیٹھا رہا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).