نیا پاکستان، نیا قائد اعظم


ریاست مدینہ کے بعد تقریباً چودہ سو سال دنیا نے بےشمار ریاستیں بنتی، ٹوٹتی اور مقبوضہ ہوتی دیکھیں۔ اس سب کی بنیاد قومیت، لسانیت، عصبیت یا لالچ وغیرہ بنیں. بر صغیر پاک و ہند پر مسلمانوں نے تقریباً سات سو سال حکومت کی جس کے دوران عیش و عشرت، خوشامد پسندی و عاقبت نا اندیشی کا نتیجہ، نا صرف زوال بلکہ غلامی کی صورت میں سامنے آیا۔

انگریز سے “جنگ آزادی” بر صغیر کی آزادی کے لیے شروع کی گئی، لیکن ’ہندو‘ اکثریت کی وجہ سے وقت کے ساتھ ہندوستان کی آزادی میں تبدیل ہو گئی۔ اس دوران وہاں کی دوسری بڑی اکثریتی قوم ’مسلمان‘ کو یہ احساس ہوا کہ بر صغیر کی بجائے ہندوستان کی آزادی کی صورت میں ان کی غلامی ختم نہیں بلکہ دائمی ہو جائے گی۔ لہذا “دو قومی نظریہ” کی بنیاد پر قرار داد پاکستان پیش کی گئی اور “انگریز” کے ساتھ ساتھ “ہندو” اور دوسری قوموں پر بھی یہ “عظیم مقصد” واضح کرنا پڑا کہ “مسلمان” ہندوستان کی نہیں بلکہ بر صغیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ “پاکستان” کے نام سے ایک علیحدہ خطہ ارض پر آزاد ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔ جس میں وہ “ریاست مدینہ” جو کہ ایک اسلامی فلاحی ریاست تھی کی طرز پر دین اسلام کے قوانین، اصولوں، قدروں اور روایات کے مطابق نا صرف زندگی گزار سکیں بلکہ خود انتظام بھی چلا سکیں۔ جس کا نتیجہ الحمد للہ! “قیام پاکستان” کی صورت میں سامنے آیا لیکن ہائے ری شامت اعمال….

“تحریک پاکستان” کے قائد اعظم محمد علی جناح کی شدید خرابی صحت کے باعث قیام پاکستان کے اس “عظیم مقصد” جس کے تحت ریاست مدینہ کی طرز پر اس کا انتظام چلنا تھا کا حصول یعنی “تکمیل پاکستان” نہ ہو سکی اور “تحریک پاکستان” ادھوری رہ گئی، ان کی آنکھ بند ہوتے ہی ہم سب وہ “عظیم مقصد” یک سر بھلا بیٹھے۔

اکہتر سال گزر گئے، پاکستان نے جمہوریت و آمریت کے بہت سے ادوار دیکھے، اس دوران گفتار کے بہت سے غازی “سیاسی شہید” ہوئے اور بہت سے آج بھی “غازی” ہیں۔ وہ “عظیم مقصد” ہمارے ذہنوں سے محو ہوتا چلا گیا اور آج یہ عالم ہے کہ مسلسل دس سال جمہوری دور کے تسلسل کے بعد جمہوری طریقے ہی سے بننے والی نئی حکومت نے جب از سر نو اس “عظیم مقصد” کے حصول یعنی “تکمیل پاکستان” کی عملی کوششوں کا سلسلہ وہیں سے جوڑنے جہاں سے ٹوٹا تھا، کا ارادہ و عزم ظاہر کیا تو قوم نے ایسے React کیا جیسے کسی اکہتر سالہ پیدائشی نابینا بزرگ کو امید دلانے کی کوشش کی جائے کہ آپ کا علاج ممکن ہے اور آپ دیکھ پائیں گے تو وہ یا تو ناراض ہو جائے گا کہ اس عمر میں اس سے مذاق کیا جا رہا ہے یا پھر خود مذاق اڑائے گا کہ اچھا پھر تو میں اپنے لئیے لڑکی خود پسند کروں گا۔

غور کیا جائے تو یہ بالکل نیچرل ہے، کچھ ایسا ہی ری ایکشن “قرار داد پاکستان” پیش ہونے پر بر صغیر کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد طرف سے بھی آیا، اس میں تقریباً ہر طبقہ فکر کے لوگ شامل تھے، کچھ نے تحریک پاکستان کے قائد اعظم “محمد علی جناح” کو ان کے خیالات پر تنقید کا نشانہ بنایا تو کچھ نے ان کے اقدامات کا مذاق اڑایا، کچھ نے مخالفت برائے مخالفت کی روش اختیار کی اور کچھ نے تو کفر کا فتوی تک دے ڈالا لیکن یہ سب وہ لوگ تھے جو اپنی مایوسی و نا امیدی کے باعث خود کسی قابل نہ ہونے کے باوجود کسی دوسرے کو خود سے قابل سمجھنے کو تیار نہیں تھے، خاص طور پر کسی روایتی حلیہ کے مسلمان کی بجائے ایک کلین شیو، سوٹڈ بوٹڈ، سگار پیتے اور انگریزی بولتے مسلمان کو تو بالکل بھی نہیں۔

ان بد نصیبوں نے “بغض جناح” میں تحریک پاکستان کی حسبِ توفیق و ہر ممکن مخالفت کی اور اس میں شمولیت کی عظیم سعادت سے یک سر محروم رہے۔ پاکستان کی موجودہ صورت احوال پر غور کیا جائے تو مندرجہ بالا سے کچھ مختلف نظر نہ آئے گی، جس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم نے “قیام پاکستان” ہی کو کافی جان لیا. اپنی مایوسی اور نا امیدی کے باعث کسی قابل نہ ہونے کی وجہ سے نہ تو خود تکمیل پاکستان یعنی اس “عظیم مقصد” کے لیے کوشش کرنے اور نہ اپنے سوا کسی اور کو اس قابل سمجھنے کو تیار ہیں۔ خاص طور پر “عمران خان” جیسے غیر روایتی حلیے کے مسلمان کو تو بالکل بھی نہیں (جس کے متعلق سنی سنائی بھی بہت ہیں).

میری ناقص رائے ہے کہ ہم سب کو اپنے اپنے “تراشیدہ بت”صرف کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ کر تدبر کرنا چاہیے (جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے)، کہ کہیں ہم بھی بد نصیب تو نہیں؟ کہیں ہم بھی کسی کے بغض میں کسی عظیم سعادت سے محروم تو نہیں ہو رہے؟ پھر چاہیے بت واپس اٹھا کر طاق میں سجا لیں، لیکن ایک بار ایسا کریں ضرور۔ ایسا نہ ہو کہ یہاں کی “بے خبری” آخرت میں “بد خبری” بن جائے۔ اس دن شائد پچھتانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).