وزیر اعظم عمران خان صاحب، تھر بھی پاکستان کا حصہ ہے


تھر صوبہ سندھ کا وہ خوب صورت حصہ ہے، جسے صحرا کی جنت بھی کہا گیا یے؛ جہاں پیار اور محبت کرنے والے دل کے امیر، اور معاشی طور پر غریب لوگ رہتے ہیں۔ ان خوب صورت لوگوں کی وادی کو کیا نام دیا جائے جہاں ریت ہی ریت ہے؛ جہاں پانی کی پیاس بجھانے کے لئے بچوں اور عورتوں کو کوسوں میل دور جانا پڑتا یے۔ جیسے پرندے پیٹ بھرنے کے صبح کو نکلتے ہیں اور شام ڈھلتے ہی گھر کو واپس آ جاتے ہیں۔ ایسی ہی زندگی ہے ان تھری لوگوں کی۔

تھر میں خشک سالی، قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی اموات کا ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تھر کے صحرا کو قحط زدہ قرار دیئے ہوئے دو ماہ سے زائد عرصہ گزر چکا ہے مگر امدادی سرگرمیوں کا کہیں بھی آغاز نہ ہو سکا، جب کہ پانی اور خوراک کی کمی سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کی طرف سے نوٹسز لئے گئے مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں۔ ان تمام تر اعلانات پر اقدامات کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے، متاثرہ علاقوں میں پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولت کا بھی بدترین فقدان ہے مگر کوئی سننے والا نہیں۔ پانی، خوراک اور چارے کی قلت کے باعث ہزاروں افراد اور لاکھوں مویشی نقل مکانی کر چکے ہیں۔ تھر کے عوام کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی طرف سے صرف نمایشی اعلانات کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور وزیر اعظم عمران خان افغانستان کو تحفے میں گندم کے ہزارون ٹن دیتے ہیں مگر تھر کے عوام کو دینے کے لئے گندم کا ایک دانا بھی نہیں ہے۔ کیا اسلام کی پہلی فلاحی ریاست مدینہ میں غیر مسلم کی مدد کرنا حرام تھی یا پھر وزیر اعظم عمران خان صاحب تھر کو نئے پاکستان کا حصہ نہیں ماننے ہیں؟

غربت اور بد حالی کا شکار یہ بے چارے لوگ دن رات ہری مرچ اور پیاز کھا کر گزارا کرتے ہیں۔ جہاں جانور اور انسان ایک ہے تالاب سے پانی پی کر متعدد بیماریاں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ سب دیکھتے ہوئے بھی ہم خاموش رہیں اور بے حسی اور نا اہلی کا مظاہرہ کریں تو پھر کیسے نہ ہو وہاں موت کا منظر۔

ملک کی میڈیا سیاست سیاست کھیل رہی ہے اور ملک کے سیاست دان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے ہوئے ہیں اور انصاف کرنے والے ڈیم بنانے کے لئے فنڈ جمع کر رہے ہیں اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب فلاحی ریاست بنانے بجائے علی بابا اور چالیس چور پکڑنے کی جست جو میں لگے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ایسے میں بھلا کون سنے گا پکار ان غیر مسلم ہندووں کی جن سے ہاتھ ملانا بھی حرام سمجھا جاتا ہے۔ وہاں صرف اور صرف انسان خدا سے فریاد کرتے نظر آئیں گے۔

آءُ گهڙي کن هيٺ لهي آ
پنهنجو جوڙيل ڏيھ ڏسي
تنهنجا ماڻهو ڪهڙا ماڻهو
پنهنجن تي نشان هڻي وڃ

تھوری دیر کے لیے نیچے آو
اپنی بنائی ہوئی دنیا دیکھ جاو
تمھارے بندے کون سے ہیں ان پر نشان لگاو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).