لاہور کا سیاسی موڈ


اتوار کی شب ضمنی انتخابات کے نتائج آنا شروع ہوئے تو کئی وجوہات کی بناءپر توجہ لاہور کے NA-131پر مرکوز رہی۔ عمران خان صاحب نے 25جولائی 2018کے دن اس نشست کو خواجہ سعد رفیق سے محض 500ووٹوں کی اکثریت سے جیتا تھا۔

سعد رفیق دوبارہ گنتی کی فریاد کرتے رہے۔ شنوائی نصیب نہ ہوئی۔ ضمنی انتخابات کے ذریعے اپنے دعوے کو درست ثابت کرنے کی لگن میں مبتلا ہوگئے۔ ہم جیسے تماش بینوں کے لئے ڈرامائی سسپنس والا ماحول پیدا ہوگیا۔الیکشن کمیشن کا شکریہ جس نے ہمیں مایوس نہیں کیا۔

بقیہ حلقوں سے نتائج بہت تیزی سے ہمارے ٹیلی وژن کی سکرینوں پر نمودار ہوتے رہے۔ سعد رفیق والے حلقے میں مگر ایک خاص مقام آتے ہی ”سسٹم“ کو کچھ ہوگیا۔25جولائی کی رات RTSوالی کہانی خود کو دہراتی محسوس ہوئی۔ سعد مگر ڈٹ کر پہرہ دے رہے تھے۔ بچت ہوگئی۔

الیکشن کمیشن کی کمپیوٹر چلانے کے حوالے سے بے بسی ایک بارپھر بے نقاب ہوگئی۔ اس سکھ کا لطیفہ یاد آگیا جو گلوٹین کے ناکارہ ہونے کی وجہ سے گلاکٹوانے سے بچ گیا لیکن رب کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے فرانسیسیوں کو اپنی ”مشین“ ٹھیک کرنے کی تلقین کرتا رہا۔ سعد رفیق کی جیت اگرچہ میرے لئے حیران کن نہیں تھی۔

حیران سچی بات ہے میں اٹک سے پاکستان مسلم لیگ نون کے ملک سہیل کی کامیابی پر بھی نہیں ہوا۔میجر صادق سے ملک امین اسلم کی وجہ سے جو سلوک ہورہا ہے اس کے نتیجے میں یہ ہونا ہی تھا۔ پہلی حیرت اویس لغاری کی ڈیرہ غازی خان سے خالی ہوئی نشست سے کامیابی پر ہوئی۔ اس میں مزیداضافہ اگرچہ سوات کی ان دونشستوں کی وجہ سے ہوا جو تحریک انصاف کے مخالف بآسانی جیت گئے۔

اٹک کی ہار نے ثابت کیا کہ تحریک انصاف عمران خان صاحب کے ذاتی کرشمے کے علاوہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی بے تحاشہ نشستوں پر اپنی کامیابی یقینی بنانے کے لئے اب بھی مقامی Electablesکی محتاج ہے۔ میجر صادق نظر انداز ہوئے تو ملک سہیل بے تحاشہ اکثریت سے کامیاب ہوگئے۔

تحریک انصاف کی صفوں میں کئی ”میجر صادق“ ملک بھر میں موجود ہیں۔ ان سے مناسب انداز میں کوئی ڈیل کئے بغیر تحریک انصاف اقتدار میں استحکام حاصل نہیں کر پائے گی۔ ”میجر صادقوں“ کو سبق سکھانے کا فیصلہ ہوا تو قومی اسمبلی میں اکثریت قائم رکھنا دشوار ہوجائے گا۔ ”فارورڈ بلاک“ کی کہانیاں اُبھریں گی۔

ضمنی انتخابات کے نتائج کا اصل پیغام مگر یہ ہے کہ عمران خان صاحب کے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں لگائے وزرائے اعلیٰ کوئیFeel Good Factorپیدا نہیں کر پائے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے احساس محرومی کی تسلی کے لئے عثمان بزدار کا انتخاب ہوا۔ ان کے گھر-ڈیرہ غازی خان- سے مگر اویس لغاری جیت گئے۔

اویس لغاری کو قومی اسمبلی کی نشست پر تحریک انصاف کی ایک خاتون نے ہرایا تھا جو سرائیکی وسیب میں وزیرستان سے آئی آباد کار تصور ہوتی ہیں۔ ایک خاتون کے ہاتھوں لغاری خاندان کی ہارکو روایتی سرداروں اور جاگیرداروں کے خلاف متوسط طبقے کا برپا کیا ”انقلاب“ بناکر پیش کیا گیا۔

عمر اس ”انقلاب“ کی لیکن محض چند روزہ ثابت ہوئی۔احتیاطاََ یہ حقیقت یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ اویس لغاری کے مقابلے میں ان کے ایک لغاری اور سردار عزیز ہی تحریک انصاف کی ٹکٹ پر کھڑے تھے۔ محض بزدار صاحب کی تعیناتی جنوبی پنجاب میں کوئی جلوہ نہیں دکھاپائی ہے۔

میڈیا میں خیبرپختونخواہ کا خاص ذکر نہیں ہوتا۔25جولائی کے انتخابات کے بعد عمران خان صاحب نے اس صوبے کے لئے سوات سے منتخب ہوئے محمود خان کو وزیر اعلیٰ بنایا۔ Spinہمارے لئے یہ گھڑی گئی کہ کئی برسوں تک دہشت گردی کا نشانہ بنے سوات سے وزیر اعلیٰ چن کر اس وادی کو سیاحت کا مرکز بناتے ہوئے خوش حالی کا ماڈل بنانا مقصود ہے۔

پیغام یہ بھی دینا تھا کہ عمران خان پشاور،چارسدہ،مردان یا نوشہرہ سے اُٹھے کسی دولت مند اور طاقت ور خان کے محتاج نہیں رہے۔پرویز خٹک نے نوشہرہ کی دونوں نشستوں سے اپنے بیٹے اور بھائی کو بآسانی منتخب کروالیا۔ محمود خان مگر سوات کو متحرک نہ کرپائے۔ ایک نشست وہاں سے پاکستان مسلم لیگ نون کو ملی۔ دوسری اے این پی کے حصہ آئی۔

محمود خان کے علاوہ اس جیت سے مراد سعید کو بھی پریشان ہونا چاہیے۔ وہ مگر ان 200ارب ڈالر کی تلاش میں مصروف ہیں جو بقول ان کے پاکستان کے کرپٹ اور بدعنوان سیاست دانوں نے غیر ملکی بینکوں میں چھپارکھے ہیں۔

اس دولت کو واپس لاکر عمران حکومت نے پاکستان کا غیر ملکی قرضہ یکمشت ادا کردینا ہے۔ باقی بچی رقوم سے ہسپتال اور سکول بنائے جائیں گے۔ بجلی اور گیس کے نرخ آدھے بنانے میں بھی آسانی ہوگی۔

سوات کی دونشستیں کھودینے کے بعد تحریک انصاف کو دوبارہ پرویز خٹک جیسے کسی ”خان“ سے رجوع کرنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔ عمران خان مگر ایچی سن کالج کے دنوں سے بنے اپنے قریب ترین دوست -پرویز خٹک-کو ”نیا پاکستان“ بنانے میں رکاوٹ تصور کررہے ہیں۔ شاید ایک بار پھر عاطف خان کے لئے جگہ بنانے کی کوشش ہوگی۔ یہ کوشش ہوئی تو خیبرپختون خواہ حکومت بھی مستحکم نہیں رہے گی۔ گروہ بندیوں کا شکار ہوجائے گی۔

سوات کے علاوہ بنوں سے عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست پر سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی کے بیٹے کی JUIکے ٹکٹ پر کامیابی بھی اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ میں مولانا فضل الرحمن کی جمعیت کا صفایا کرنے کے لئے بہت محنت اور وقت درکار ہے۔ اپنے جلسوں میں ”ڈیزل-ڈیزل“ کے نعرے لگانے سے کام نہیں چلے گا۔

ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون کو محض وسطی پنجاب کے شہروں تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ اویس لغاری کی جیت جنوبی پنجاب میں Electablesکے ساتھ اس کے اثر کی گواہ ہے۔شمالی پنجاب کے اٹک کا معاملہ بھی ایسا ہی نظر آیا۔

حیرانی کی بات اگرچہ فیصل آباد سے قومی اسمبلی کی ایک نشست کا نتیجہ بھی ہے۔ تلہ گنگ اور گجرات کے نتائج تحریک انصاف کے بجائے چودھری برادران کی سیاسی کاریگری کا اثبات ہیں۔

اہم ترین بات مگر شہر لاہور کا موڈ ہے۔ شریف خاندان کو فی الوقت یہ شہر بھلانے کو آمادہ نظر نہیں آرہا۔ مری سے ہارے شاہد خاقان عباسی کی بنیادی طورپر قدیم بارہ دروازوں اور ایک موری والے شہر لہور سے جیت ایک معمولی واقعہ نہیں۔

میرے کچھ بہت ہی پیارے دوستوں نے گزشتہ کئی برسوں سے لاہور کو ”تخت لہور“ بناکر ظلم اور استحصال کی علامت بناکر پیش کیا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اکثربھول گئے کہ ”تخت لاہور“ کا استعارہ اسی شہر کے ٹیکسالی دروازے سے اُٹھے ایک جولا ہے-شاہ حسین- نے اکبر بادشاہ کے آخری اور جہانگیر کے دورِ اقتدار کے آبائی ایام میں متعارف کروایا تھا۔

یہ استعارہ اس بے چینی کی علامت رہا ہے جو راوی دریا کے کناروں پر بسے افراد کے DNAمیں شامل ہے۔

اس بے چینی کو جان کر ہی اقبال سیالکوٹ سے اُٹھ کر ایران میں ”لہوری“ مشہور ہوئے۔ برطانوی سرکار کی پناہ میں ابھارے سر فضل حسین، واہ کے سکندر حیات اور خوشاب کے خضر حیات ٹوانہ کی متعارف کردہ ”’خوئے غلامی“ کو اقبال نے لاہور بیٹھ کر ہی بے نقاب کیا تھا۔

مولانا ظفر علی خان کا ”زمیندار“ اخبار بھی اس شہر سے نمودار ہوا۔مولانا عطا اللہ شاہ بخاری کی تحریک احرار کا مرکز بھی یہ شہر تھا اور مولانا مودودی نے جماعت اسلامی کو پروان چڑھانے کے لئے اس شہر کا انتخاب کیا تھا۔قراردادِ پاکستان لاہور ہی میں منظور ہوئی تھی۔

کوئی نفسیاتی وجہ ہوگی کہ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد اس شہر میں رکھی اور عمران خان کے ”انقلابی“ ہونے کا سفر بھی اس شہر میں اکتوبر 2011والے جلسے سے ہوا۔ لاہور کے سیاسی موڈکو حقارت سے رد کرتے ہوئے پاکستان کی سیاست کو سمجھنا ممکن نہیں۔

عمران خان صاحب اور ان کے مداحین اس شہر کو جس انداز میں ”قابو“ میں لانے کے لئے استعمال کررہے ہیں وہ برطانوی استعمار کے کام بھی نہیں آیا تھا۔ ”نئے پاکستان“ میں تو بالکل نہیں چل پائے گا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).