مستند ہے میرا فرمایا ہوا


پاکستان میں جب سے “جدید ریاست مدینہ” قائم ہوئی ہے، ہر طرف امن، مساوات، عدل و انصاف اور رواداری کا دور دورہ ہے۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پینے لگے ہیں۔ ماضی کے جابر، غاصب اور ظالم حکمران ظل الہی کے زیر عتاب ہیں۔ ان کی ز بانیں گنگ، حواس مختل، دل گرفتہ، قدم لرزیدہ، نم دیدہ اور سر غرور خمیدہ ہو رہے ہیں۔

“طاقتوروں” کو پابجولاں سر بازار رُسوا کن انداز سے چلا کر عبرت کا نشان بنایا جا رہا ہے۔ کچھ کج فہم، کٹ حجت اور بیمار سوچ کے حامل صف دشمناں میں شامل ہو کر معترض ہیں کہ سال ہا سال سے بنجر زمینوں میں علم و شعور، آگہی و حکمت اور بصارت و بصیرت کی آب یاری کرنے والے اہل نظر کو سر عام ہتھ کڑیاں لگا کر پیشہء پیغمبر الہی کی تحقیر و تذلیل کیوں کی جا رہی ہے؟ ایسا کہنے والے عاقبت نا اندیش، عقل سے پیدل اور بے حس، کیا یہ نہیں جانتے کہ ان کے جرائم کی فہرست بہت طویل اور بھیانک ہے۔ ان کا سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انھوں نے ایک ذہنی و فکری پس ماندگی کے حامل معاشرے میں فکر و آگہی کی دولت کو عام کیا۔ بنجر اور بے آباد سر زمین میں عقل و شعور کے گل ہائے رنگ رنگ کھلائے۔ جہالت اور گم راہی کےگھٹا ٹوپ اندھیروں میں حکمت و بصیرت کا نور پھیلایا۔ جدید ریاست مدینہ نے ایسے ظالموں کو عبرت کا نشانہ تو بنانا تھا۔

ایسے ملک دشمن اور عدل و انصاف کے عدو بھی ہیں، جو اسلام آباد، کراچی، لاہور، راولپنڈی اور دوسرے شہروں میں تجاوزات کے خلاف ہونے والے بے لاگ آپریشن کو غریبوں کی جھونپڑیوں، ٹھیلوں اور خوانچہ بانوں کی روزی پر لات مارنے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کم فہموں اور بے عقلوں کو کیا معلوم کہ یہی طبقہ تو در حقیقت ملک کی ترقی اور خوش حالی کا اصل دشمن ہے۔کچھ عقل کے اندھے ایسے بھی ہیں کہ جو بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل سواروں اور سڑک پر رانگ سائڈ سے آنے والوں کے خلاف ایک ہزار روپے کے چالان، بھاری جرمانے اور ایف آئی آر کے اندراج پر بھی چیں بہ جبیں ہو رہے ہیں۔ یہ اپنی روایتی سادگی اور معصومیت کے نقاب اتار پھینکیں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ سزائیں تو ان سنگین جرائم کے خلاف کچھ بھی نہیں۔ انھیں تو سیدھی گولی مار دینا چاہیے۔

اب ایسے مکاروں اور نو سر بازوں کا بھی علاج کرنا پڑے گا، جو بزعم خویش خادم اعلی کہلوانے والے ڈرامے باز کی گرفتاری پر تنقید کرتے ہوٰئے، اس عمل کو احتساب کے بجائے انتقام سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ان کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ جدید ریاست مدینہ میں سابق حکومت کے عہدیداران اور ذمہ داران جب تک خود کو بے گناہ ثابت نہ کریں، اس وقت تک انھیں مجرم ہی سمجھا جائے گا!

ادھر بہت سوں کے پیٹ میں اس لیے بھی مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے آتے ہی بجلی، گیس، پانی، پٹرول سمیت ہر چیز کے نرخ آسمان پر پہنچا دیے ہیں۔ ان بے حسوں کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ حکومت گزشتہ حکومت کی طرح انتظامی مہارت سے مالا مال نہیں ہے، بلکہ خالص کاروباری اصولوں سے لیس ہے، جو کسی پاگل دکان دار کی طرح مہنگی چیزیں خرید کر سستے داموں نہیں بیچ سکتی۔ کچھ نا ہنجار اور نا لائق حکومت کے اس مستحسن اور قابل ستایش اقدام پر بھی جز بز ہو رہے ہیں، کہ تبدیلی کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے 2016 سے بجلی کی قیمتوں میں چار روپے فی یونٹ اضافہ کر کے مفلوک الحال عوام پر ظلم عظیم کر رہے ہیں۔ ایسے لوگ اگر معمولی سوجھ بوجھ کے مالک بھی ہوتے تو یہ بے جا شکوہ ہرگز نہ کرتے۔

اس حکومت کی خدا ترسی اور رحم دلی کیا کم ہے، کہ وہ یہ اقدام 2016 سے کرنے والی ہے، ورنہ یہ نیک کام 1947 سے بھی شروع کیا جا سکتا تھا، جب بجلی کا نام و نشان بھی نہیں تھا، اور تو اور، کچھ چالاک و سازشی عناصر ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت کی شان دار و جان دار کار کردگی کو عوام میں ان کی مقبولیت اور پذیرائی کے گراف کو گرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ ان کو فوری طور پر کسی ماہر نفسیات سے اپنا معائنہ کروانا چاہیے۔ انھوں نے وفاقی وزیرِ اطلاعات کا چشم کشا اور بصیرت افروز خطاب نہیں سنا، کہ جس میں انھوں نے منطقی اور استدلالی انداز اپناتے ہوئے ارشاد فرمایا تھا، کہ حالیہ انتخابات میں پی ٹی آئی نہیں ہاری، بلکہ مخالف سیاسی پارٹیاں جیتی ہیں۔ مگر ہر حال میں گلاس کو آدھا بھرا ہو کہنے کے بجائے آدھا خالی کہنے والوں کی ملک عزیز میں بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسے جہلا و سفلا کو بہتر ہے ان کے احوال پر چھوڑ دیا جائے۔

اب کچھ منہ پھٹ اور دریدہ دہن قسم کے سڑیل گنوار حکومت کے آئی ایم ایف کے پاس بغرض حصول قرض جانے پر نالاں ہیں۔ انھیں کون بتائے کہ قرض تو امریکا جیسے ملک بھی لیتے ہیں۔ ہم نے لے لیا، تو کون سی قیامت آ گئی؟ البتہ ماضی میں مسلم لیگ نون کی حکومت کا یہ کام ملک دشمنی اور غداری پر ضرور منطبق ہوتا تھا اور یوں بھی ہم نے ماضی کے حکمرانوں کے مقابلے میں، اس بار آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر قرض لینے کی بات کی ہے۔ اپنے مرزا غالب بھی تو قرض کی مے پینے پر فخر و انبساط کا برملا اظہار کر چکے ہیں۔

مخالفین اور سازشی سن رکھیں کہ یہ حکومت ووٹ کے زور پر آئی ہے، اور اسے کوئی نہیں ہلا سکتا۔ جسے اس میں شک ہو وہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا حالیہ روح پرور و ایمان افروز بیان دیکھ سکتا ہے، جنھوں نے برملا عام انتخابات کو ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات قرار دے کر، تمام شکوک و شبہات دور کر دیے ہیں۔ ان کے بیان صفائی کے بعد ہمیں اور کسی سند کی ضرورت نہیں؛ کیوں کہ بقول میر:
؎ سارے عالم پر میں ہوں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).