غربت کے خاتمے کا عالمی دن 


غربت کے خاتمے کا عالمی دن 1993ء سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے عالمی سطح پر منانے کا مقصد دُنیا بھر میں عدمِ مساوات، غربت، محرومی، غریب عوام کی حالتِ زار، ان کی فلاح و بہود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے ۔ماہرینِ معاشیات کے مطابق خطہِ غربت کا معیار کم از کم روزانہ 1.5ڈالر کمائی مقرر کیا گیا ہے، جس کے مطابق ماہانہ 4.5 ہزار کمانے والے افراد خطہِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر نے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہر سال غربت کے خاتمے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ باوجود اس کے آج بھی دُنیا میں غریب افراد کی تعداد دو ارب سے تجاوز کر چکی ہے۔

دُنیا کی مجموعی آبادی میں تقریباً دس فی صد انسان ایسے ہیں، جو انتہائی زیادہ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کا تعلق بر اعظم ایشیا اور افریقہ سے ہے۔ دُنیا میں ستر کروڑ انسان غربت کی نچلی ترین سطح پر زندگی گزار رہے ہیں۔ عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 60 فی صد آبادی خطہِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ بھارت اور بنگلا دیش میں پاکستان سے کہیں زیادہ غربت ہے۔ بنگلا دیش میں غربت کی شرح 76 فی صد، جب کہ بھارت میں 68 فی صد ہے۔ پاکستان میں 6 کروڑ افراد خطہِ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ وطن عزیز میں غربت کی شرح کچھ یوں ہے:

2001-02 ورلڈ بنک کے اندازے کے مطابق شرح غربت 34.7 فی صد
2004-05 میں 23.3 فی صد
2005-06 میں 21.9فی صد
2007-08 میں 16.5فی صد
2010-11 میں 12.2فی صد
2011-12 میں 12.4
2013-14 میں 9.3 فی صد تھی۔

اب دس میں سے ایک فرد غربت کی زد پر ہے۔ بمطابق رپورٹ، غربت کی سب سے زیادہ شرح فاٹا، بلوچستان میں ہے۔ شہری علاقوں میں غربت کی شرح 9.3 جب کہ دیہی علاقوں میں غربت کی شرح 54.6 فی صد ہے۔ قبائلی علاقوں فاٹا 73 فی صد، بلوچستان 71 فی صد، بلوچستان کا علاقہ برکھان 90 فی صد؛ کے پی کے 2 49 فی صد؛ سند ھ 43.1 فی صد؛ پنجاب 31.4 فی صد؛ کراچی اور اسلام آباد 10فی صد؛ گلگت بلتستان 2 43 فی صد؛ کشمیر 25 فی صد افراد غربت کا شکار ہیں (نئے طریقہ کار کے تحت 2013-14میں غربت کی شرح 29.5ٗ جب کہ 2001-میں شرح غربت 64.3 تھی)۔

26 فی صد آبادی کو صحت کی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ کثیر الجہت غربت رپورٹ (جس میں آمدن معیار نہیں، بلکہ تعلیم، صحت اور زیست کی بنیادی سہولیات کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے ) کہ مطابق غربت کا شکار افراد میں 43 فی صد افراد کو تعلیمی سہولیات میسر نہیں۔ 32 فی صد افراد غیر معیاری زندگی گزار رہے ہیں۔ وطن عزیز میں بے روزگاری کی شرح 5.9 فی صد ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں کی 20 فی صد، دیہی علاقوں میں 33 فی صد غربت کا شکار ہیں۔ اس طرح ملک کے 76 لاکھ گھرانے غریب قرار پاتے ہیں (پرانی تعریف کہ تحت یہ تعداد 30لاکھ تھی)۔

علاوہ ازیں دو کروڑ ایسے افراد ہیں، جو غربت کے قریب تر ہیں کوئی بھی سانحہ انھیں خطہِ غربت کی نچلی سطح پر دھکیل سکتا ہے۔2007ء سے 2013 کے دوران وطنِ عزیز کی سالانہ نمو میں نچلے طبقے کی 40 فی صد آبادی کی اوسط کھپت81 فی صد، جب کہ مجموعی آبادی کی اوسط کھپت 2.53 فی صد رہی۔ 2013 میں ہونے والے قومی غذائی سروے کے مطابق 60 فی صد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے اور اس میں 50 فی صد بچے اور خواتین باقاعدہ غذائی قلت سے دو چار ہیں۔

یو این ڈی پی کے کثیر الجہتی غریت انڈیکس کے مطابق پاکستان میں مناسب معیارِ زندگی ٗ صحت ٗ تعلیم اور دوسری بنیادی سہولیات کے تناظر میں شدید غربت کی شرح تقریباً 44 فی صد ہے اس طرح ورلڈ بنک کے 2014 کے سروے کے مطابق 60.19 فی صد آبادی خطہِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس میں 21.4 فی صد آبادی شدید غربت کی لپیٹ میں زندہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق 60.6 فی صد آبادی کو کنگ آئل سے محروم ٗ 48.5 فی صد بچے اسکول کی تعلیم مکمل نہیں کر سکتے۔ 39 فی صد (دس میں سے ایک) افراد کے پاس جائیداد نہیں۔ 38 فی صد سے زائد آبادی ایک کمرے کے مکان میں مکین؛ 2.5 کروڑ بچے اسکول جانے ہی سے محروم؛ اس کے علاوہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح کے لحاظ سے ہمارا تیسرا نمبر ہے۔

پاکستان میں 2010 میں یہ شرح 73.5 فی صد تھی، جو 2015 میں 65.8 فی صد ہو گئی ہے۔ جب کہ بھارت میں 2010 میں ہر 1000پیدائش میں سے 46.3 فی صد بچے مر جاتے تھے اور 2015 میں یہ شرح کم ہو کر 37.9 تک ہو گئی ہے۔ پاکستان میں پانچ لاکھ سے زائد خواتین دوران زچگی جان سے ہاتھ دھوتی ہیں، ایک تہائی آبادی صحت کی سہولیات سے محروم ہے۔ ہم سایہ ممالک کے تناسب سے دیکھا جائے تو پاکستان میں غریب طبقے کی قومی نمو 04 فی صد سے زائد ہے۔ چین 8 فی صد شرح نمو کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ جب کہ بھارت کو ان ممالک کی فہرست میں ہے، جہاں غریب طبقے کی آمدنی اوسط سے بھی کم رفتار سے بڑھ رہی ہے۔

بمطابق اعداد و شمار 21.25 فی صد بھارتی عالمی بنک کی مقررہ کردہ خطہِ غربت کے دہانے یا اس سے بھی نچلی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں، جب کہ پاکستان میں یہ شرح 8.3 فی صد ہے۔ 58 فی صد بھارتی شہریوں کی یومیہ آمدن 3.10 ڈالر ہے۔ جب کہ وطنِ عزیز میں یہ شرح 45 فی صد ہے۔ بھارت میں خواتین اوسط عمر 69.49 سال اور پاکستان میں 67.15 سال ہے۔

سال 2011 کے اعداد و شمار کے مطابق 59.2 بھارت کی لڑکیاں خواندہ، جب کہ پاکستان میں یہ شرح 41.9 ہے۔ خوراک کی کمی بھارت میں کل آبادی کا 15.2فی صد حصہ خوراک کی کمی کا شکار تھی، جب کہ پاکستان میں یہ شرح 22 فی صد تھی۔ ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے، جہاں 2008 سے 2013ء کے دوران عدمِ مساوات میں کمی دیکھی گئی ہے۔ عدمِ مساوات کا اندازہ لگانے والے انڈیکس (Gini Index) منفی 2.4 فی صد تک کم ہوا۔

وطنِ عزیز میں اُم المسائل معیشت کا عدمِ توازن، بے روزگاری، مہنگائی، ناخواندگی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر وطنِ عزیز میں غربت میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا ہے۔ کیوں کہ کرہ ارض میں سب سے زیادہ غربت ان ممالک میں ہے جو تنازعات کا شکار ہیں؛ یا پھر ان کا انحصار درآمدات پر ہوتا ہے ۔ہمیں آج غربت کے خاتمے کے عالمی دن کو عہد کرنا چاہیے، کہ لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے میں ہنگامی بنیادوں پر کاوش کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).