کیا وزیر اعظم عمران خان کا ملکی ترقی کا منصوبہ چوری ہو گیا ہے؟


پاکستان تحریک انصاف کا یہ دعوی ہے کہ وہ ملک میں انصاف کا بول بالا، کرپشن کا خاتمہ اور سب کے لیے یکساں مواقع پیدا کرکے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گی اور پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنا کر پوری دنیا کے لیے ایک مثال قائم کرے گی۔

پاکستان تحریک انصاف پر بار بار یہ الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ یو ٹرن لیے کے عادی ہیں اور حکومت کی 100 روزہ کارکردگی سے پہلے ہی سب کو یہ معلوم ہو گیا ہے کہ مہنگائی کا سونامی آنے والا ہے جس میں کروڑوں غریبوں سمیت لاکھوں سفید پوش بھی ڈوب جائیں گے۔

بہت جلد ہی بجلی، گئس، پیٹرول اور دیگر اشیاء کے نرخ آسمان کو چھونے والے ہیں۔ ٹیکس سے لے کر حکومت چلانے کے لیے خزانہ بھرنے کے لیے تمام تر اقدمات کا مزا تو آخر کار عوام کو ہی چکھنا ہے۔ ویسے بھی مہنگائی کا سونامی آنے سے یا پھر آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بقول وزیر اعظم عمران خان صاحب کہ کوئی آسمان تو نہیں ٹوٹ پڑے گا۔ ویسے بھی یہ حقیقت ہے کہ تیل تلوں سے ہی نکلتا ہے اس میں نئی بات کیا ہے آج بھی ماضی کے وہ وزیر مشیر وزیر اعظم عمران خان کی کابینہ کا حصہ ہیں جو ٹماٹر اور چینی کے مہنگا ہونے پر کہتے پھرتے تھے کہ غریب کون سا چینی اور ٹماٹر کھاتا ہے اس دفعہ بھی غریب کے لیے جوابات تیار ہوں گے اور ہمیشہ کفایت شعاری صرف غریب کی ہی جھولی میں گرتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے پاس 2018 کے عام انتخابات سے پہلے ملکی ترقی و خوشحالی اور اداروں کی بحالی کے حوالے سے ایک مفصل پلان موجود تھا ساتھ ساتھ مہاتیر محمد کا پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ وزیر اعظم عمران خان کو ملکی ترقی کا وہ راز بھی موجود تھا جس سے ملائیشا نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی پھر ایسا کیا ہوا کہ اس پلان پر عمل درآمد کہیں بھی نظر نہیں آ رہا۔ غریبوں یتیموں کے لیے بنائی ہوئی فلاحی ریاست ان کا گلا گھونٹے پر مجبور نظر آ رہی ہے کیوں کہ اداروں کو بحال کرنے کے بجائے ان کو اونے پونے بیچنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں کیوں کینسر کا علاج ڈسپرین سے کیا جا رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے تو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا مگر آج تو ڈیلی ویجرز اور مستقل لوگوں کی نوکریاں بھی داؤ پر لگی نظر آ رہی ہیں۔ پچاس لاکھ گھر نئے گھر بنانے کے خواب دکھائے جا رہے ہیں چھت کا خواب تو اچھا ہے مگر ایسی نئی چھت کس کام کی جس میں غریب فاقہ کشی مجبور ہوکر مر جائے۔ یہ کسی فلاحی ریاست بن رہی ہے کہ جس حکومت کا ایک وزیر تجاوزات کے نام پر عوام کے گھر اور کاروبار گراتے سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل کرتے نظر آئے جبکہ اپنے رشتے داروں اور حکومتی عہدیداروں کے قبضے لیگل لائیز کراتے نظر آئے اور پتہ تب چلا جب وزیر صاحب پر یہ الزام لگا کہ انہوں نے سرکاری اہلکاروں سے لاکھوں روپے کا چندہ لے کر اپنے محل کی تزین و آرائش پر لگائے اور جیسے ہی ان کی یہ خبر چلی سوشل میڈیا سے آئے وزیر صاحب اپنی ویڈیو سمیت غائب ہو گئے۔

ایک طرف تو وزیر اعظم عمران خان اپنے خواتین پارلیمینٹرین کو سر پر اسکارف کرنے کی تلقین کرتے پھرتے ہیں اور پاکستان تحریک انصاف وفاقی حکومت میں قرآن پاک اور اخلاقیات پر مبنی ایک مضموں کو لازم قرار دے کر اساتذہ کی ٹرینگ کر رہے ہیں تاکہ زندگی کو کامیاب اور اخلاقیات کو بہتر بنایا جا سکے اور دوسری طرف پارلیمان میں پاکستان تحریک انصاف کے وزیر چور چور کے نعرے اور دیگر سیاسی پارٹیوں کو مختلف القابات سے نوازتے پھرتے ہیں جس پر تمام حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیاں شدید احتجاج کرتی نطر آئیں۔ ایک طرف تو پاکستان تحریک انصاف ملک میں عملی سیاست اور خدمت کرنے کی دعویدار ہے دوسری طرف گالی گلوچ کی سیاست کی داغ بیل ڈال کر ٹائم پاس کر رہے ہیں۔

پاکستان کے عوام نے وزیر اعظم عمران خان کو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ وہ ملک سے روایتی سیاست کا خاتمہ کر کے سستا اور برقت انصاف فراہم کریں گے مگر پنجاب سے لے کر وفاق تک وہی روایتی لوگ اور وہی روایتی سیاست نظر آ رہی ہے جس کا نہ کوئی عوام کو فائدہ ہے نہ ہی پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا۔ پاکستان تحریک انصاف نے حکومت میں آتے ہی پروٹوکول کے خاتمے کی باتیں کی تھیں جبکہ وزیر اعظم عمران خان صاحب سمیت ان کے وزراء کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوئیں کہ دیکھو یہ ہے نیا پاکستان۔ آہستہ آہستہ یہ پروٹول کے خاتمے کی باتیں ہوا کی نظر ہو گئیں اور آج لوگ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اس ملک سے اسٹیٹس کو کا خاتمہ کبھی نہیں ہو سکتا۔

کیا پاکستان تحریک انصاف کے پاس ملکی ترقی کا جو منصوبہ تھا وہ چوری ہو گیا یا پھر وہ دیمک کی نظر ہو چکا؟ کیا وزیر اعظم عمران خان صاحب مہاتیر محمد کی وہ راز کی باتیں بھول چکے ہیں یا پھر انہوں اپنا قبلہ الگ کر دیا ہے۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف سے لے کر ضمنی اتنخابات کے نتائج پر خان صاحب اپنے پارٹی کے اہم وزیروں اور مشیروں کی کارکردگی سے سخت نالاں ہیں مگر ان کے پاس نہ ہی ان سے بہتر ذہین اور با شعور لوگ ہیں نہ ہی کوئی اور راستہ ہے جس پر چل کر وہ کامیاب ہو سکیں کیونکہ خان صاحب کا وزیر اعظم بننے سے پہلے ملکی ترقی اور خوشحالی کا جو پلان تھا وہ اب چوری ہو گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).