پتھر دل انسانو، بیٹی کو مت جلاؤ


\"edit\" پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے ارکان نےلاہور میں ایک اٹھارہ سالہ لڑکی کو مرضی کی شادی کرنے پر زندہ جلائے جانے کے واقعہ پر  متفقہ طور پر تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ سینیٹرز کا مؤقف ہے کہ اس قسم کے جرائم کے خلاف فوری طور پر سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے گھناؤنے جرائم کا تدارک ہو سکے۔ چند ہفتے کے دوران کسی نوجوان لڑکی کو پیٹرول چھڑک کر زندہ جلادینے کا یہ تیسرا اندوہناک واقعہ ہے۔ سینیٹ کے قانون سازوں کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر ایسے جرائم کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو موجودہ طریقہ کے مطابق ملزم چند ماہ میں ضمانتوں پر رہا ہو جائیں گے۔

فی الوقت سینیٹ کے چئیرمین رضا ربانی نے یہ تجویز مزید کارروائی کے لئے سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کو روانہ کردی ہے۔ حکومت اگر چاہے تواس سنگین جرم کی روک تھام کے لئے فوری طور پر آرڈی ننس کے ذریعے بھی قانون کو مؤثر بنا سکتی ہے۔ تاہم سینیٹ میں بحث کے دوران اپوزیشن اور سرکاری بنچوں سے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے تجویز پیش کی گئی ہے کہ اس مقصد کے لئے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں قانون منظور کیا جائے تاکہ اسے بلا تاخیر نافذ کیا جا سکے۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف چوہدری اعتزاز احسن کا مطالبہ تھا کہ اس سلسلہ میں ایسا قانون بننا چاہئے ، جس کے تحت نہ تو ملزموں کی ضمانت ہو سکے اور نہ ہی فریقین کے کسی معافی نامے کو قبول کیا جائے۔ اس تجویز کا پس منظر یہ ہے کہ ملک میں ہونے والے اس قسم کے جرائم عام طور سے خاندان کے لوگ ’غیرت‘ کے نام پر کرتے ہیں اور بعد میں مرنے والی لڑکی کے ورثا ہی اپنے بیٹے یا بھائی کو معاف کرکے یا قصاص وصول کرکے معاملہ رفع دفع کرلیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان جرائم کی روک تھام کے لئے فوری اقدام ہونا چاہئے تاکہ عورتوں کے خلاف انسانیت سوز مظالم کا یہ سلسلہ بند ہو سکے۔

تاہم قانون سازی اس حوالے سے ہونے والا صرف ایک قدم ہو سکتا ہے۔ دراصل اختلاف رائے یا کسی لڑکی کی طرف سے زبردستی شادی سے انکار کی صورت میں اسے اس کا حق سمجھنا اور قبول کرنا ضروری ہے۔ یہ رویہ عام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ملک کے جو ادارے یہ کام کرسکتے ہیں ، وہ اس صورت حال کا بوجھ لڑکیوں پر ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں۔ ان میں خاص طور سے ملک کے علما اور ان کے زیر انتظام کام کرنے والے دینی مدارس اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ لیکن یہ ادارے کسی بھی ایسے واقعہ پر کوئی احتجاج کرنے یا اس رویہ کو مسترد کرنے کے لئے آواز بلند نہیں کرتے۔ حتیٰ کہ سرکاری فنڈز سے چلنے والی اسلامی نظریاتی کونسل بھی عورتوں کے حقوق کے لئے کی جانے والی ہر بات کو اسلام کے خلاف قرار دے کر معاشرے میں مسلسل جبر کی راہ ہموار کرنے کا سبب بنی ہوئی ہے۔

لاہور کی 18 سالہ زینت بی بی کو خبروں کے مطابق اس کی اپنی ماں نے ہی پیٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جس کے سبب وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگئی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق زینت کا جسم 95 فیصد جھلس چکا تھا اور پوسٹ مارٹم کے وقت اس کی سانس کی نالی میں دھؤاں موجود تھا۔ پولیس کے مطابق مقتولہ کی ماں نے جرم کا اعتراف کرلیا ہے لیکن اس الزام میں خاندان کے متعدد دوسرے لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ زینت نے اپنی مرضی سے شادی کرلی تھی لیکن اہل خاندان اسے یہ جھانسہ دے کر گھر واپس لائے تھے کہ وہ اس کو باقاعدہ رخصت کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے مری میں ایک 19 سالہ اسکول ٹیچر کو اپنے سے دوگنی عمر کے مرد کے ساتھ شادی سے انکار پر جلا کر مار دیا گیا تھا۔ گزشتہ ماہ ایبٹ آباد میں ایک ایسے ہی واقعہ میں گاؤں کی پنچایت نے سترہ برس کی ایک لڑکی کو جلا کر ہلاک کر دیا تھا۔ اس جرم میں پورا گاؤں شریک تھا۔

پاکستان میں ہر سال غیرت کے نام پر ایک ہزار سے زیادہ لڑکیوں کو وحشیانہ طریقے سے ہلاک کیا جاتا ہے۔ تاہم اندازہ ہے کہ یہ اعداد و شمار جرم کی حقیقی صورت حال سے بہت کم ہیں۔ اکثر صورتوں میں ایسے جرم کو قصاص کے قواعد کا سہارا لیتے ہوئے رفع دفع کرلیا جاتا ہے۔ اس طرح جرم کا یہ مزاج معاشرے میں مسلسل پنپ رہا ہے۔ فلم ساز شرمین عبید چنائے نے غیرت کے نام پر قتل پر ایک دستاویزی فلم ’اے گرل ان دی ریور’ بنائی ہے جسے آسکر ایوارڈ سے نواز گیا ہے۔ جون میں وزیر اعظم ہاؤس میں اس فلم کی نمائش کے بعد نواز شریف نے وعدہ کیا تھا کہ ایسے جرائم کی بیخ کنی کے لئے فوری طور پر قانون سازی کی جائے گی تاکہ ایسے مجرم قانون کی گرفت سے بچ نہ سکیں ۔ یہ وعدہ ابھی ایفا نہیں ہؤا کہ اب سینیٹ نے ایسی ہی تجویز دی ہے۔

قانون سازی کے علاوہ غیرت کے نام پر قتل اور عورتوں کے ساتھ ذیادتی اور ان کی رائے مسترد کرنے کے حوالے سے مروج سماجی رویہ کو تبدیل کرنے کے لئے ملک کے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں مضامین شامل کرنے، مذہبی رہنماؤں کو متحرک ہونے اور سماجی تنظیموں کو مزاج سازی کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ معاملہ سماجی شعور میں اس حد تک رچ بس گیا ہے کہ لوگوں کے رویے تبدیل کرنے کے لئے سخت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اہل پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مہذب دنیا کا حصہ بننے کے لئے معاشرے کے کمزور ر طبقوں اور خواتین کا استحصال ختم کرنا بے حد ضروری ہے۔ یہی ملک کی اکثریت کے عقیدہ کا بھی حصہ ہے لیکن اسے بے رحمی سے بھلا دیا گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments