جمال خشوگی کا مبینہ قتل، سعودی عرب کی مشکل اور ترکی کا مفاد


دو اکتوبر کے دن سعودی صحافی جمال خشوگی استنبول میں سعودی عرب کے قونصل خانے میں اپنی طلاق کے کاغذات حاصل کرنے گیا اور واپس نہیں آیا۔ باہر اس کی منگیتر باہر کھڑی انتظار کرتی رہی اور کئی گھنٹے بعد اس نے ترک حکام کو مطلع کیا۔ سعودی کہتے ہیں کہ خشوگی قونصل خانے سے چلا گیا تھا لیکن اس کے اندر جانے کی ویڈیو تو ہے، باہر آنے کی نہیں۔

ترک حکام مختلف خبر رساں اداروں کو بتا رہے ہیں کہ خشوگی کو قتل کر کے اس کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا ہے اور ان کے پاس خشوگی پر تشدد اور قتل کی گیارہ منٹ کی ریکارڈنگ موجود ہے۔ وہ یہ ریکارڈنگ کئی ممالک بشمول سعودی عرب اور امریکہ کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔ ترک حکام کے مطابق اس دن قونصل خانے کے سٹاف کو صبح ساڑھے گیارہ بجے ہی چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا اور انہیں کہا گیا تھا کہ اس دن قونصل خانے پر ایک میٹنگ ہونی ہے۔ اس ریکارڈنگ کے بارے میں وہ بتا رہے ہیں کہ اس کا جمال خشوگی کی ایپل واچ سے کوئی تعلق نہیں ہے، یعنی ترک انٹیلی جنس کامیابی سے سفارت خانے کو بگ کیے بیٹھی ہے۔

امریکہ میں مقیم جمال خشوگی بااثر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار تھے۔ اس اخبار نے لکھا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان نے جمال خشوگی کو پہلے بھی گھیر کر سعودی عرب لانے کے آپریشن کی منظوری دی تھی۔ خشوگی کو تحفظ کا وعدہ اور کئی لالچ دیے گئے تھے مگر خشوگی نے اعتبار کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

سعودی عرب نے ابتدائی طور پر جمال خشوگی کے معاملے سے لاعلمی ظاہر کی۔ پھر دباؤ بڑھا تو عرب اخبارات کے ذریعے دنیا کو متنبہ کیا گیا کہ سعودی عرب پر پابندیاں لگانے کے بھیانک نتائج نکلیں گے۔ سعودی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے نام لیے بغیر حکام کا بیان جاری کیا کہ سعودی عرب تمام دھمکیوں کو مسترد کرتا ہے خواہ یہ معاشی پابندیوں کی ہوں، سیاسی دباؤ کی یا بار بار جھوٹے الزامات لگانے کی۔ نیز اگر پابندیاں لگائی گئیں تو یاد رکھنا چاہیے کہ سعودی معیشت کا عالمی معیشت پر بہت زیادہ اثر ہے اور سعودی عرب پابندیوں کا ان سے بڑھ کر سخت جواب دے گا اور عالمی معاشی بحران پیدا ہو جائے گا۔

واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ اب وہ زمانے لد گئے جب امریکہ سعودی عرب سے تیل درآمد کیا کرتا تھا۔ شیل کی ٹیکنالوجی کے بعد اب امریکہ دنیا میں خام تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ وہ اس سعودی امپورٹ سے سات گنا زیادہ تیل خود ایکسپورٹ کرنے لگا ہے۔ اگر سعودی عرب نے تیل کا ہتھیار استعمال کیا تو عارضی طور پر قیمتیں بڑھیں گی مگر کچھ عرصے بعد امریکی کمپنیاں یہ کمی پوری کر دیں گی اور امریکہ فائدے میں رہے گا۔

اب ترکی کی طرف سے اس مبینہ ریکارڈنگ کی فراہمی کے بعد صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے گزشتہ دنوں ٹویٹ کی کہ ان کی سعودی بادشاہ شاہ سلمان سے بات چیت ہوئی ہے اور شاہ سلمان نے بہت زیادہ زور دے کر کہا کہ انہیں اس معاملے کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے۔ لیکن ترک ثبوتوں کی موجودگی میں صدر ٹرمپ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ممکن ہے کہ یہ کام بدمعاش اور قابو سے باہر افراد نے کیا ہو۔ سعودی بادشاہ نے ترک صدر سے بات چیت کی ہے اور ترک مطالبے پر سعودی ترک مشترکہ تفتیشی ٹیم نے سعودی قونصل خانے کا معائنہ کیا ہے اور ثبوت اکٹھے کرنے کی کوشش کی ہے۔

اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ سعودی حکام اس بات کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں کہ جمال خشوگی کی موت حراست میں لیے جانے کے بعد تفتیش کے دوران ہوئی تھی جس کا مقصد ان کو سعودی عرب لے کر جانا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں یہ نتیجہ متوقع ہے کہ یہ آپریشن اجازت کے بغیر کیا گیا تھا اور اس کے ذمے داروں کو سزا دی جائے گی۔ پھر بھی لاش کو مبینہ طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے غائب کرنے کا معاملہ بھی پریشان کن ہے اور اس کا عذر پیش کرنا آسان نہیں۔

کچھ ایسے سوالات ہیں جن کے جوابات سعودی عرب کے لیے دینا مشکل ہے۔ جس پندرہ رکنی ٹیم پر شبہ کیا جا رہا ہے، اسے قونصل خانہ استعمال کرنے کی اجازت کس نے دی تھی؟ اسے یہ اجازت سعودی وزارت خارجہ، داخلہ یا انٹیلی جنس ہی دے سکتے ہیں۔ ورنہ یہ یقین کرنا آسان نہیں کہ ایک طرف یہ ٹیم کسی جوابدہی کے بغیر آپریٹ کر رہی ہو اور قونصل جنرل بھی اس کے ساتھ شامل ہو جائے۔ یہ تینوں ادارے بہت اہم سعودی شخصیات کے تحت کام کرتے ہیں۔

ترکی اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ شام میں جنگ کے علاوہ قطر کے معاملے پر بھی دونوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں۔ سعودی عرب قطر کا مقاطعہ کرنا چاہتا ہے۔ مخالفت اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ نہ صرف فضائی حدود اور زمینی سرحد بند کر دی گئی ہے بلکہ قطر کا جزیرہ نما عرب سے زمینی تعلق توڑنے کے لیے سعودی عرب ایک بہتر بڑی نہر بنانے کا منصوبہ تیار کیے بیٹھا ہے جس کے جون 2018 میں ٹینڈر فائنل ہو چکے ہیں۔ قطر کے ساتھ ایران اور ترکی پوری طاقت سے کھڑے ہو گئے ہیں جس سے وہ ان پابندیوں کا سامنا کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

مشرق وسطی اور عالم اسلام کی لیڈری کے لیے سعودی اور ترک دونوں ایک سفارتی جنگ میں الجھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں ترکی میں سعودیوں کا اس طرح پھنس جانا ان کے لیے شدید مشکل کا باعث ہے۔ لیکن ترکی کا ماضی بھی یاد رکھنا چاہیے۔ ترکی کو مطلوب ایک مشہور کرد دہشت گرد عبداللہ اوجلان کو 1999 میں کینیا میں یونانی سفارت خانے سے پکڑا گیا تھا۔ ترکی اور یونان کی آپس میں صدیوں پرانی دشمنی چلی آ رہی ہے۔ اس موقعے پر ترک چاہتے تو یونانیوں کو ناکوں چنے چبوا دیتے۔ لیکن یونانی وزیراعظم نے اپنے وزیرخارجہ سمیت کچھ افراد کو فارغ کر دیا جو ترکی کے شدید مخالف تھے تو ترکی نے اس کا اچھا ریسپانس دیا اور دنوں ممالک کے درمیان تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہو گئے۔

تلخ حقیقت ہے کہ ملکوں کے درمیان مفادات کے سودے ہوا کرتے ہیں اور ملکی مفادات کے سامنے اخلاقیات کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اس وقت سعودی عرب شدید مشکل میں ہے۔ خاص طور پر ولی عہد شہزادہ محمد اس طوفان کی زد میں ہیں۔ خشوگی کے معاملے سے پہلے بھی وہ کینیڈا، جرمنی اور کئی اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ کر بیٹھے ہیں اور خطے میں یمن، شام اور قطر کے ساتھ دشمنی ڈال چکے ہیں۔ شہزادہ محمد اس وقت کہنے کو تو ولی عہد ہیں لیکن درحقیقت سعودی عرب کے عملی طور پر وہی بادشاہ ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ معاملہ شدت پکڑنے لگا تو انہوں نے صدر ٹرمپ کے داماد اور اپنے دوست جارڈ کشنر کے ذریعے اسے دبانے کی کوشش کی جو بظاہر ناکام ہو گئی اور سعودی بادشاہ کو معاملات خود اپنے ہاتھ میں لینے پڑے۔

اس صورت حال سے منجھے ہوئے سیاستدان رجب طیب ایردوان بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ غالباً کچھ لوگوں کو سزا تو ضرور ملے گی، لیکن یہ ویسے ہی ہو گا جیسے ہمارا کوئی امیر وزیر کوئی جرم کر بیٹھے تو اس کا کوئی وفادار اقبال جرم کر کے جیل چلا جاتا ہے۔ ترک حکومت کے قریب سمجھے جانے والے کالم نگار اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ انقرہ یہ نہیں چاہتا کہ خاندان سعود بالکل ہی پھنس جائے بلکہ اسے سیف ایگزٹ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ یعنی جرم قبول کرو مگر اسے قابو سے باہر اہلکاروں کے سر پر ڈال دو۔

دیکھنا یہ ہے کہ واشنگٹن پوسٹ جیسا طاقتور ادارہ ایسی کوئی ڈیل کو ہونے دیتا ہے یا وہ صدر ٹرمپ کو مجبور کرنے میں کامیاب ہو جائے گا کہ وہ ترکی اور سعودی عرب پر دباؤ ڈالیں اور شفاف انصاف کے تقاضے پورے کریں۔ ایسا ہوا تو یہ خطے کے سیاسی منظر نامے میں بہت بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ بہرحال اس وقت سب پتے ترک صدر کے ہاتھ میں ہیں۔

https://twitter.com/adnanwk

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar