سنکیانگ کے ری ایجوکیشن سینٹر دہشت گردی روکنے میں معاون: شہرت ذاکر


سنکیانگ

اویغور سنکیانگ کی آبادی کا 45 فیصد حصہ ہیں

چین کے مغربی خطے سنکیانگ کے چیئرمین نے اویغور مسلمانوں کے لیے قائم کیے جانے والے مبینہ حراستی کیمپوں کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی ہیں۔

سرکاری میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے شہرت ذاکر نے کہا ہے کہ ‘پیشہ ورانہ تعلیم’ کے یہ مراکز دہشت گردی روکنے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘تربیت پانے والے’ یہ موقع ملنے پر شکرگزار ہیں کہ انھیں اپنے طور طریقے بدلنے اور زندگی کو زیادہ ‘رنگین’ بنانے کا موقع مل رہا ہے۔

اویغور مسلمانوں کے کیمپوں کے بارے میں مزید

اویغور مسلمانوں کے لیے ’سوچ کی تبدیلی‘ کے مراکز

چین: اویغوروں کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں کیا جا رہا ہے؟

کوئی مسلم ملک اویغور مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں بولتا؟

اویغوروں کو کیمپوں میں رکھنے پر اقوام متحدہ کی تشویش

سنکیانگ میں چین کی طرف سے بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ پر دنیا بھر میں کڑی تنقید ہوئی ہے، اور بظاہر یہ انٹرویو اس تنقید کے جواب میں دیا گیا ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اویغور مسلمانوں کو ڈی این اے کا نمونہ دینے سے انکار، مقامی زبان میں گفتگو یا حکام کے ساتھ بحث جیسی معمولی باتوں کی پاداش میں بغیر فردِ جرم عائد کیے غیر معینہ مدت تک قید رکھا جا رہا ہے۔

حکام نے دس لاکھ کے قریب اویغور اور دوسرے اقلیتی افراد کو گرفتار کر کے کیمپوں میں ڈال دیا ہے، تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دہشت گردی روکنے کے لیے ضروری ہے۔

سنکیانگ کی حکومت کے چیئرمین شہرت ذاکر نے سرکاری خبررساں ادارے شن ہوا پر چھپنے والے انٹرویو میں کہا ہے کہ خطہ 90 کی دہائی سے ‘دہشت گردی، انتہاپسندی اور علیحدگی پسندی کی ‘تین شیطانی قوتوں’ کی زد میں ہے، اس لیے حکومت کو ان کی ‘جڑ کاٹنے’ کے لیے اقدامات کرنے پڑے ہیں۔

‘پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام’ اب چینی قانون کا حصہ بن گیا ہے اور اس کی مدد سے ‘زیرِ تربیت’ افراد کو ‘اپنی غلطیوں پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے تاکہ وہ واضح طور پر دیکھ سکیں کہ دہشت گردی اور مذہبی انتہاپسندی کے کیا نقصانات ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ان مراکز میں چینی تاریخ، زبان اور ثقافت پڑھائی جاتی ہے اور شرکا کو ‘قوم، شہریت اور قانون کی حکمرانی’ کے بارے میں آگاہ کیا جاتا ہے۔

اویغور

انھوں نے یہ نہیں کہا کہ آیا یہ تعلیم زبردستی دی جاتی ہے، لیکن عندیہ دیا کہ یہ افراد کیمپوں ہی میں رکھے جاتے ہیں جہاں ‘کیفے ٹیریا صحت بخش، مفت خوراک’ فراہم کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاسٹلوں میں مکمل سہولیات موجود ہیں اور کیمپوں میں باقاعدگی سے کھیلوں کے مقابلے منعقد ہوتے ہیں۔

ذاکر نے انٹرویو کے دوران کئی بار زیرِ تربیت افراد کے تاثرات نقل کیے۔ مثال کے طور پر ان کے مطابق ایک شخص نے کہا کہ ‘حکومت نے مجھ سے امید ترک نہیں کی۔ اس نے مجھے بچایا ہے اور میری مدد کی ہے، مجھے مفت خوراک، رہائش اور تعلیم دے رہی ہے۔ میں اس موقعے سے فائدہ اٹھاؤں گا اور ملک اور معاشرے کے لیے مفید فرد بنوں گا۔’

ایک اور شخص نے کہا کہ تربیت ملنے کے بعد ان کی آمدن بڑھ گئی ہے۔ ‘میں اپنے خاندان کا سہارا بن گیا ہوں۔ میرے بچوں کو مجھ پر فخر ہے۔’

اویغور کون ہیں؟

اویغور ترکی النسل مسلمان ہیں اور یہ چین کے مغربی علاقے میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ یہ سنکیانگ کی کل آبادی کا 45 فیصد ہیں۔

وہ خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر دیکھتے ہیں اور ان کی زبان ترکی زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔

لیکن حالیہ دہائیوں میں سنکیانگ میں ہان (چین کی اکثریتی نسل) چینیوں کی بڑی آبادی وہاں منتقل ہوئی ہے اور اویغوروں کو ان سے خطرہ لاحق ہے۔

چین نے سنکیانگ کو ملک کے اندر تبت کی طرح ایک خودمختار خطہ قرار دے رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp