ناؤ پانی کی موت سے ڈرتی ہے


ناؤ کے لیے پانی ضروری ہے

وہ لکڑی کی ہو یا کاغذ کی

اسے بہنے کے لیے پانی چاہئیے

پانی اسے لذتِ سفر کی انتہاؤں تک لے جاتا ہے

نئے جزیروں، نئی دنیاؤں کی سیر کراتا ہے

ناؤ پانی سے پیار کرتی ہے

ناؤ کو تیرتے رہنا اچھا لگتا ہے

وہ پانی کے پیٹ پر گدگدی کر کے خوش ہوتی ہے

اور لہریے بناتی ہوئی چلتی ہے

کنارہ اسے باندھے رکھتا ہے

کنارہ کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو

ناؤ کا دل اس میں نہیں لگتا

وہ اپنے مانجھی سے محبت کرتی ہے

اسے مچھلیوں کی باس

لہروں کا شور

اور ملاحوں کے گیت پسند ہیں

ناؤ نت نئے مسافروں کی منتظر رہتی ہے

تا کہ انہیں اُس پار لے جائے

جہاں راستے قدموں کی راہ دیکھتے ہیں

اور پارینہ بارگاہوں کے دروازے

خوش اندام عورتوں کے لیے کھلے رہتے ہیں

ناؤ کے کان بڑے حساس ہوتے ہیں

وہ ہوا کی سرگوشیاں

اور مسافروں کی باتیں سن لیتی ہے

اور انہیں پانیوں تک پہنچا دیتی ہے

پانی بادلوں کو

اور بادل بارشوں کے ذریعے

ساری باتیں زمین کو بتا دیتے ہیں

زمین رازوں کا جنگل ہے

جس میں ہر روز چوری ہو جاتی ہے

انسان اپنے ہی رازوں کو

کاٹ کاٹ کر بیچتا رہتا ہے

حتیٰ کہ ایک دن زمین درختوں سے،

انسان رازوں سے

اور ناؤ مسافروں سے خالی ہو جاتی ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
11 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments