وجاہت مسعود کا مسترد شدہ کالم


آج کل ہم کسی قدر سخت موسموں سے گزر رہے ہیں لیکن ہوا میں عجیب مانوس کیفیت ہے۔ ٹھیک چالیس برس پہلے بھی ایسا موسم اترا تھا۔ تب ڈاکٹر انور سجاد نے ایک مختصر سا ناول “خوشیوں کا باغ ” لکھا تھا۔ اس ناول کا بنیادی استعارہ پندرہویں صدی کے ڈچ مصور بوش کی شہرہ آفاق میورل سے لیا گیا تھا۔ باکمال نثر نگار اکرام اللہ نے ایک ناول “گرگ شب” کے عنوان سے لکھا تھا۔ ناول پڑھنے کی زحمت تو شاید ہی کسی نے کی ہو، عنوان کی داڑھی میں تنکا البتہ نظر آ گیا اور ناول پہ پابندی لگا دی گئی۔ انہی برسوں میں انور سن رائے کے ناول “چیخ” کے عنوان میں ایڈورڈ منچ کی شہرہ آفاق پینٹنگ کی بازگشت چلی آئی تھی۔ حالیہ مہینوں میں کچھ دوستوں سے پوچھا، کیا پڑھ رہے ہو؟ حیران کن طور پر بیشتر دوستوں نے میلان کنڈیرا کا نام لیا۔ ان دنوں پاکستان میں میلان کنڈیرا کا یاد آنا معنی سے خالی نہیں۔ وہی میلان کنڈیرا جس نے کہا تھا کہ ادب فراموشی کے خلاف یادداشت کی تخلیقی مزاحمت کا نام ہے۔ کنڈیرا 1929 میں چیکو سلواکیہ کے شہر پراگ میں پیدا ہوا۔ چیکو سلواکیہ کبھی ایک ملک ہوتا تھا۔ اب نہیں رہا۔ پراگ البتہ موجود ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ شہر ملکوں سے زیادہ توانا ہوتے ہیں۔ ملک کی سلامتی مقصود ہو تو شہر کی فکر کرنی چاہیے۔

کنڈیرا کا بچپن جرمن قبضے میں گزرا۔ 1948 میں سٹالن کے کمیونزم نے آ لیا۔ وقت اور مقام کا جبر تھا۔ نوجوان میلان کنڈیرا کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہوا۔ پارٹی اور یونیورسٹی دونوں سے نکالا گیا۔ لکھنا چاہا تو 1969 کی پراگ بہار آن پہنچی۔ کتابوں پر پابندی لگی۔ کھڑکیاں چھوپی گئیں، در بند ہوئے، ہم نظر بند ہوئے۔ کنڈیرا 1975 سے فرانس میں رہتا ہے اور وجود کی ناقابل برداشت لطافت کو لفظوں میں قید کرتا ہے۔ یہ کتھا اس لیے لکھی کہ میلان کنڈیرا کی ایک رائے آپ کو سنائی جائے۔ کہتا ہے، جہنم پیدا ہی جنت کے خواب سے ہوتی ہے۔ جنت کا خواب حقیقت میں بدلنے لگتا ہے تو کہیں سے چند سرپھرے آ نکلتے ہیں۔ اہل حکم مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان احمقوں کی مزاج پرسی کے لیے ایک چھوٹا سا گولاگ بمعنی عقوبت خانہ تعمیر کریں۔ وقت کے ساتھ ساتھ گولاگ کا حجم بڑھتا رہتا ہے جنت کا خواب جھوٹا پڑ جاتا ہے۔ ایک اور نسل تاریخ کی تاریکی میں گم ہو جاتی ہے۔

ہفتے کے روز فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے لندن میں صحافیوں سے گفتگو کی اور پاکستان کا خوشگوار نقشہ کھینچا۔ جنرل صاحب کے سوانحی خاکے سے معلوم ہوا کہ جس برس فوج میں شامل ہوئے، درویش بے نشاں نے دشت غربت میں قدم رکھا تھا۔ سن اے خرد مند، ہم جو دو بھائی تھے…. آصف غفور توپخانے میں متعین ہوئے۔ قلم کا مورچہ ہمارے حصے میں آیا۔ عمر کے راہوار کی چال بھانپنا مشکل ہوتا ہے۔ تیس برس کی صحرا نوردی کے بعد آصف غفور کا واسطہ صحافیوں سے پڑ گیا۔ صحافی سوال کیا کرتے ہیں۔ جیسا کہ میلان کنڈیرا نے کہا، جنت کے دروازے پر سرپھرے ضرور ہوتے ہیں۔ جواب ملے نہ ملے سوال ضرور اٹھاتے ہیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے فرمایا کہ احتساب کا فوج سے کوئی تعلق نہیں۔ بجا فرمایا۔ قانونی طور پہ تو جنرل آصف درست کہتے ہیں لیکن، تاریخ کچھ اور ہی بتاتی ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب نے سیاست دانوں کے احتساب کی روایت شروع کی۔ جنرل یحیی نے تو ایسا احتساب کیا کہ آدھا ملک ٹوٹ گیا۔ جنرل ضیا الحق کا احتساب گیارہ برس پہ پھیل گیا۔ جنرل مشرف نے نیب کا کثیرالمقاصد ادارہ قائم کیا جو آج کل ملک کی خدمت کر رہا ہے۔ قانونی موشگافیوں سے قطع نظر رینجرز بہرصورت فوج ہی کا حصہ ہیں۔ اور محترم چیف جسٹس نے پانامہ کی جے آئی ٹی میں جس تڑکے کا ذکر کیا ہے، اس کی ماہیئت تو 17 جنوری کے بعد ہی واضح ہو سکے گی۔

جنرل آصف کہتے ہیں کہ انتخابات شفاف تھے۔ سرکار ابھی تو وہ پارلیمانی کمیٹی ہی تشکیل نہیں پا سکی جسے انتخابی شکایات پر تحقیق کرنا ہے۔ جنرل صاحب کہتے ہیں کہ کسی سے نہیں کہا کہ فلاں کو ووٹ دو یا نہ دو۔ واقعی کسی ووٹر سے ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا البتہ جنہیں ووٹ لینا تھے ان میں سے چند دریدہ دہنوں نے اس طرح کے مشوروں کی شکایت کی ہے۔ دوسرے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ انتخابات کی نگرانی کے لیے 371000 کی نفری کس نے طلب کی تھی؟ نگران وزیر داخلہ اعظم خان تو کہتے تھے کہ ان سے اس بارے میں پوچھا ہی نہیں گیا۔ جنرل آصف غفور ایک ذمہ دار منصب دار کی طرح بہت تول کر بات کہتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ 1977 کو چھوڑ کر آج تک تمام انتخابات فوج کی نگرانی میں ہوئے ہیں۔ اگر حالیہ انتخابات شفاف ترین تھے تو ماضی میں غیرشفاف انتخابات کی ذمہ داری کس پر عائد کی جائے؟

جنرل آصف غفور نے نہایت مثبت پیرائے میں بتایا کہ مسلم لیگ حکومت نے فوج کی ہر ضرورت پوری کی۔ حضور، پاکستان میں ہر سول حکومت نے یہ ذمہ داری پوری کی اور آئندہ بھی کرے گی۔ یہ بدگمانی نامعلوم کہاں سے پیدا ہوئی کہ کوئی منتخب حکومت سلامتی کے اداروں کی ضروریات سے غفلت برت سکتی ہے۔ اقبال نے زبور عجم میں فرمایا

بچشم منگر عاشقان صادق را

کہ ایں شکستہ بہایاں متاع قافلہ اند

جنرل صاحب نے فرمایا کہ ہم مضبوط جمہوریت چاہتے ہیں نیز یہ کہ اگر فوج کا احتسابی نظام ملک میں لاگو کر دیا جائے تو تمام مسئلے حل ہو جائیں گے۔ اس رائے میں تناقض پایا جاتا ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کا نسخہ پنڈی کی مری روڈ سے نہیں ملتا۔ فوج کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں، طریقہ ہائے کار، ثقافت اور اخلاقیات شہری آبادی سے بالکل مختلف ہیں۔ ملک دستور کے تابع ہے اور دستور کے تحفظ کی ضمانت آرٹیکل 6 میں دی گئی ہے۔ 2013 میں آرٹیکل 6 سے رجوع کرنے کا انجام خوشگوار نہیں رہا۔

برادر محترم آصف غفور نے درست کہا کہ فوج کا پرویز مشرف کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ غالبا ان کا اشارہ آل پاکستان مسلم لیگ کی طرف ہو گا۔ قوم تو یہ جاننا چاہتی ہے کہ 12 اکتوبر 1999 سے 18 اگست 2008 تک پرویز مشرف نے جو سیاست کی اس سے لاتعلقی کا اعلان کون کرے گا؟ آئی ایس پی آر کے سربراہ بجا فرماتے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے 76000 جانیں دی گئیں۔ فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے رواں سال کے شروع میں فرمایا تھا کہ ہم چالیس برس پرانی غلطیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ٹھیک چالیس برس پہلے انتہا پسندی اور دہشتگردی کی فصل بوئی جا رہی تھی۔ دست بستہ درخواست ہے کہ دہشت گردی کی مخالفت کرنے والوں کی فہرست میں ان سوختہ سامانوں کے نام بھی شامل کئے جائیں جو 1979 سے افغان پالیسی کی مخالفت کے جرم میں ملک دشمن قرار پاتے رہے۔

آخری بات یہ کہ میجر جنرل آصف غفور نے حالیہ انتخابات میں ووٹرز کے ٹرن آؤٹ کو ریکارڈ قرار دیا ہے۔ نشاندہی کرنی چاہیے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ووٹر ٹرن آؤٹ صرف 29 فیصد رہا۔ برسوں سے اس شہر میں امن و امان کی ذمہ داری منتخب حکومت کے پاس نہیں۔ لاپتہ افراد اور غیرحاضر ووٹر میں گہرا تعلق ہے۔ لاپتہ شہریوں کی بازیابی، مضبوط جمہوریت اور مستحکم معیشت کے لئے شہروں اور ان کے محافظوں کے بیچ آئین کی فصیل قائم کرنا ضروری ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).