اساتذہ کو لگی ہتھکڑیوں کی جھنکار۔۔۔ !


جناب چیف جسٹس کا نوٹس کافی نہیں۔۔۔ !

کسی کو خبر ہے کہ علم کی روشنی بکھیرنے والے کن تنگ و تاریک کھولیوں میں پڑے ہیں؟

”کیا اساتذہ کو لگی ہتھکڑیوں کی جھنکار،  ایک گونج بن کر،  سر کش و بے باک نیب“ کے ”حمام باد گرد“ کا جادو توڑ سکتی ہے؟” اگر نہیں تو ہم واقعی ایک زیاں کار قوم ہیں اور کوئی نہیں جو اس معاشرے کو زوال کی گہری کھائیوں کا رزق ہونے سے بچا سکے۔

کون کون سی مادرانِ علمی سے تعلق رکھنے والے کن کن وائس چانسلرز کو ہتھکڑیاں لگیں،  کن کن عمر رسیدہ،  بیمار اور معذور اساتذہ کو فولادی کڑے پہنائے گئے،  انہیں دھکے دیتے ہوئے کیسی کیسی گاڑیوں میں ٹھونسا گیا،  انہیں کس طرح کی تنگ و تاریک کھولیوں میں بند رکھا جا رہا ہے،  اُ ن کے تفتیش کار اُن سے کس لب و لہجہ میں کلام کرتے ہیں،  اور اپنی زندگیاں ہزاروں نوجوانوں کو تعلیم دینے کےلئے وقف کردینے والے ان اساتذہ کے دل ودماغ میں کس طرح کے بگُولے اُٹھ رہے ہوں گے؟ ان سوالوں میں اب کیا رکھا ہے اور ان کے جوابات کی حاجت بھی کیا ہے؟

معاشرہ زندہ وبیدار ہوتا تو علم و دانش کی اس توہین و تضحیک پر درودیوار لرز اُٹھتے۔ لیکن اندھی دوڑ میں شریک، بے ہنگم راستوں پر بگٹٹ دوڑتی بے سمت قوموں کے پاس دم بھر رُکنے،  اُکھڑی ہوئی سانسیں بحال کرنے اور یہ سوچنے کے لئے اتنا وقت ہی کہاں کہ کیا سانحہ ہو گیا ہے۔ ہم پیہم زوال کی پستیوں کی طرف لڑھک رہے ہیں۔ اور گزشتہ چند برسوں سے لڑھکنے کی رفتار تیز تر ہوگئی ہے۔  پریشانی بجا کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت گرتی جا رہی ہے لیکن کسی کو یہ فکر نہیں کہ مادیت کے مقابلے میں اخلاقیات کی قدر کس تیزی سے کم ہو رہی ہے۔  سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی کا غم بجا لیکن کسی کے پاس یہ سوچنے کا وقت نہیں کہ تہذیب و معاشرت کے بازارِ حصص میں،  اُجلی روایات کس بُری طرح پامال ہو رہی ہیں۔  تشویش بجا کہ زرمبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں لیکن کسی کو دُکھ نہیں کہ روشن اسلامی اقدار کا توشہ خانہ کس تیزی سے برباد ہو رہا ہے۔  ہم ایک بار پھر دیرینہ ”بیماری شکم”  کے علاج کےلئے آئی۔  ایم۔  ایف کے ”عطار خانے” کا رُخ کر چکے ہیں لیکن اُس سرطان کےلئے کس حکیم کا دروازہ کھٹکھٹائیں جو ہمارے قومی وجود کو تیزی سے چاٹ رہا ہے۔  ہمارے چارہ گر تو مسخروں کا روپ دھارے،  سوانگ رچا رہے ہیں۔  چارہ گری کے منصبوں پہ بیٹھا یہ ایذا پسند اور اذیت شعار قبیلہ،  لوگوں کی پگڑیاں اُچھالنے،  چہروں پر کالک تھوپنے،  گریبان نوچنے،  دامن تار تار کرنے،  سرِ عام بے لباس کر نے اور ہرایک کی پشت پر ذلت و رسوائی کے کوڑے برسانے سے لطف لیتا اور اس انسانیت سوز مشق کو اپنے وجود کا جواز بناتا ہے۔

 ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ کرپشن پر ضربِ کاری لگانے کی رُت ہے۔  اس رُت میں تحقیق،  تفتیش،  شہادت،  ثبوت اور دستاویز جیسی باتیں بے معنی اور فضول ہو جاتی ہیں۔ ایسے موسم میں عزتِ نفس،  احترامِ آدمیت اور شرفِ انسانیت جیسے خرخشے بھی لایعنی ہو جاتے ہیں۔  زور آوری اور زبان درازی کے ایسے عہد بے آب و رنگ میں بس اتنا کافی ہوتا ہے کہ کسی کو چور،  ڈاکو،  کرپٹ،  بد عنوان،  راہزن،  لٹیرا یا اٹھائی گیرا کہہ دیا جائے۔ چونکہ یہ القابات ” شیریں لبوں” سے پھوٹتے ہیں اس لئے انہیں الزام کی بجائے ”مسلمہ حقیقت”  کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔

مہذب دُنیا میں صدیوں سے رائج ایک مسلمہ اصول کو قانون و انصا ف کی روح کا درجہ حاصل ہے۔ ”ہر شخص معصوم اور بے گناہ ہے جب تک وہ مجرم ثابت نہ ہو جائے۔“ اور بار ثبوت بھی الزام لگانے والے پر ہے،  ملزم پہ نہیں۔  اسلامی جمہوریہ پاکستان اس کرہ ارض پر واقع عجب بستی ہے جس کا دستور یہ ٹھہرا ہے کہ۔  ”ہر شخص گناہ گار،  مجرم،  کرپٹ،  بد عنوان،  چور اور ڈاکو ہے جب تک وہ بے گناہ ثابت نہ ہو جائے۔” یہاں پہ بار ثبوت بھی الزام لگانے والے پر نہیں، ملزم پہ ہے۔  ایسے ”سیاہ رو“ قانون کے ہوتے ہوئے بھی ہمیں ناز ہے کہ ہماری ریاست کے نام کے ساتھ اسلام کا متبرک پیوند بھی لگا ہے اور جمہوریت کا ریشمی ٹانکہ بھی۔  دُنیا میں یہ چلن عام ہے کہ جھوٹا اور بے بنیاد الزام عائد کرنے والا شخص،  قانون کی کڑی گرفت میں آتا اورجوابدہ ہوتا ہے۔  وہ الزام ثابت نہ کر سکے تو سنگین سزا پاتا اور ساری عمر اپنے زخم چاٹتا رہتا ہے۔ پا کستان میں بھی بے بنیاد الزام لگانے اور شہرتِ عامہ کو نقصان پہنچانے کے حوالے سے متعدد قوانین موجود ہیں لیکن آج تک کسی الزام تراش اور زباں دراز کو سزا نہیں ہوئی۔  برسوں سے دائر مقدمات چیونٹی کی رفتار سے چل رہے ہیں اور پگڑی اُچھال قبیلہ نت نیا سرکس لگائے رکھتا ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ الزامات کے تیر صر ف جھاڑ جھنکار میں چھپے ”طفلانِ خود معاملہ” ہی کی طرف سے نہیں،  بڑے بڑے معتبر اور مقتدر درختوں پہ جمی اونچی مچانوں سے بھی آتے ہیں۔  اسی سال،  8 مئی کو چیئرمین صاحب کی اجازت اور دستخطی منظوری کے بعد،  نیب نے ایک اعلامیہ جاری کیا کہ تین بار پاکستان کا وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف نے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے دُشمن ملک بھارت کو پانچ ارب ڈالر بھیجے ہیں جن سے بھارتی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو قوی بنایا گیا ہے۔  ورلڈ بنک چیخ اُٹھا۔ سٹیٹ بنک نے دہائی دی۔  میڈیا نے مضحکہ اُڑایا۔  نواز شریف نے تردید کر تے ہوئے قانونی کارروائی کی دھمکی دی۔ تب ”عذرِ گناہ بدتر از گناہ” جیسی ایک مری مری سی وضاحت آئی اور بس۔ کون پوچھے کہ تم نے اتنا سنگین ا لزام کس بنیاد پر لگا دیا؟

سیاست دان تو ستر برس سے ”ریت بوری”  (Sand Bag) بنے ہوئے ہیں جن پر ہر صاحبِ اختیار بہ قدرِ توفیق،  مُکا زنی کی مشق کر رہا ہے۔  دکھائی دینے والے مستقبل میں بھی اُن کی تقدیر بدلتی نظر نہیں آتی۔  لیکن کیا معاشرے کہ باقی تمام طبقے،  آبِ ِ زم زم کی آبشار تلے نہا کر پاکیزہ و معصوم ہو چکے ہیں؟ کیا بیوروکریسی، صنعت وتجارت،  ہر نوع کے کاروبار،  ریاستی اداروں،  پولیس،  فیصلہ سازوں،  طاقتور بارگاہوں اور عفت مآب عدل گاہوں کے سبھی متعلقین کا احتساب ہو چکا؟ کیا اب پاکستان کے طول وعرض میں بکھرے سبھی جرائم پیشہ عناصر،  فرشتوں کے پیکرِ نوری میں ڈھل چکے ہیں؟ اگر نہیں تو ایک بے ننگ و نام قانون کے خونخوار پنجے،  اساتذہ کی گردنوں تک کیوں آن پہنچے ہیں؟

جناب چیف جسٹس نے اس مکروہ حرکت کا نوٹس لیا۔ اچھا کیا۔  متعلقہ افسر کی سرزنش کی۔  وہ آبدیدہ ہوا۔ معافی مانگی اور پھر اُسی کارِ خیر میں جُت گیا جس کی جوابدہی کیلئے بلایا گیا تھا۔ یہ سب کچھ کافی نہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وائس چانسلرز اور دیگر اساتذہ کو نیب کی کھولیوں سے آزاد کر دیا جائے؟کیا یہ ممکن نہیں کہ مہذب رینو ں سے ان پر لگے الزامات کی بے لاگ جانچ پرکھ کرلی جائے؟  کیا ضروری نہیں کہ عدالت ِ عظمےٰ،  آمرانہ عہد کے شاہکار اور سامراجی ذہن کی پیداوار اس کالے قانون کا جائزہ لے۔  جو کسی بھی شخص کو بغیر اس کا قصور بتائے،  کئی کئی ماہ کال کوٹھریوں میں ڈال دیتا، ہتھکڑیوں میں جکڑ کر انہیں کچہریوں میں پریڈ کراتا اور شر ف ِ انسا نیت کو پاﺅں تلے روندتا ہے۔  آصف علی زرداری اور نواز شریف،  اس دستاویزسیاہ کو خارج از آئین  کرنے کا حوصلہ نہ کرسکے۔  سو وہ اِ س کی قیمت چکا رہے ہیں۔

کیا بنیادی حقوق کے بارے میں نہایت حساس اور فعال چیف جسٹس،  پوری عدالتِ عظمیٰ پر مشتمل بینچ بنا کر اس معاملے کا حتمی جائزہ نہیں لے سکتے کہ نیب کا قانون،  آئین کے بنیادی خمیر اور اجتماعی ضمیر سے کس قدر متصادم ہے؟ عدالت کسی آئینی ترمیم کو نہیں چھیڑ سکتی،  لیکن قوانین کو کالعدم کرنے کی روایت تو چلی آرہی ہے۔  اگر یہ بھی نہیں تو کم از کم عدالتِ عظمےٰ،  پارلیمنٹ کو سفارش تو کر سکتی ہے کہ بنیادی حقوق آئینی ڈھانچے کی اساس ہیں اور اس اساس پر ضرب لگانے والے اس قانون کا جائزہ لیا جائے۔  اساتذہ کو لگی ہتھکڑیوں کی جھنکار،  گونج بن کر شاہراہ دستور کی جابر عدل گاہ تک پہنچ جائے تو شاید اس حیا باختہ اقدام کا ازالہ ہو سکے۔

 ہماری تاریخ میں روشن دن ہیں ہی کتنے؟ ۔۔۔۔ کوئی ہے جو اس ”روزِ سیاہ” کو ہماری تقویم سے خارج کر دے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).